ٹیکنالوجی کا دور یا جھوٹ کا زمانہ …؟

April 22, 2019

تحریر:ضیاء الحمسن طیب…برمنگھم
نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تمام زمانوں میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھراس کے بعد کازمانہ، پھر اس کے بعد کا زمانہ! گردش زمانہ جوں جوں حضور اقدسﷺ کے زمانہ سے دور اور قیامت کے قریب کے قریب ہوتا جارہا ہے اس میں سے خیرو برکت دور ہوتی جارہی ہے جو خیرو برکت آپﷺ کے زمانہ میں تھی وہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ کے زمانہ میں نہ تھی اور جو برکت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ میں تھی وہ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ میں نہ تھی۔ اس کی وجہ اور سبب حضور اقدسﷺ کے زمانہ کا بعد اور دوری تھی، امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے دوران درس ایک مرتبہ فرمایا کہ دہلی میں ایک بزرگ تھے وہ دال روٹی کی ریڑھی لگایا کرتے تھے اور اس آواز کے ساتھ روٹی فروخت کرتے کہ بھائی کل کی باسی روٹی دو آنے اور آج کی تازہ روٹی ایک آنہ، لوگوں نے پوچھا بابا جی اس کی وجہ کیا ہے کہ کل کی باسی روٹی دو آنے اور آج کی تازہ روٹی ایک آنہ تو انہوں نے کہا کہ کل کا دن حضور اقدسﷺ کے زمانہ سے زیادہ قریب تھا اس لئے اس میں برکت زیادہ تھی اور آج کا دن حضور اقدسﷺ کے زمانہ سے ایک دن مزید دور ہوگیا ہے اس لئے اس میں برکت کم ہوگئی ہے۔ حضورؐ ﷺکا زمانہ تمام زمانوں سے کیوں بہتر تھا اس لئے کہ اس زمانہ میں حضور نبی کریمﷺ بذات خود دنیا میں موجود تھے اس پر آپ کے دور میں وحی الٰہی کا نزول ہو رہا تھا قرآن اتر رہا تھا، حضرت جبرئیل امین دن میں کئی کئی مرتبہ نزول فرماتے تھے اور اللہ کے احکامات اور پیغام کو آپﷺ تک پہنچاتے تھے۔ پورا زمانہ اللہ کی رحمتوں اور نوازشوں سے مالا مال تھا، نیکی غالب تھی اور بدی مغلوب تھی حق اور سچ کا دور دورہ تھا جھوٹ، خیانت، دجل وفریب خال خال تھا لوگ گناہ سے نفرت اور نیکی سے محبت کرتے تھے کسی سے اگر کبھی کوئی گناہ سرزد ہو بھی جاتا تھا تو اس پر شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرتا تھا اور بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر اپنے گناہ کا اقرار کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ اسے اس کے گناہ کی سزا دی جائے حالانکہ کوئی گواہ موجود نہ تھا کوئی مقدمہ نہ تھا مگر کوئی بھی شخص اپنے گناہ کا بوجھ لے کر زمین پر چل نہیں سکتا تھا۔ جوں جوں زمانہ حضورﷺ کے زمانہ سے دور ہوتا گیا امانت و دیانت کی جگہ خیانت و بددیانتی نے لے لی، سچ کی جگہ جھوٹ نیکی کی جگہ بدی نے لے لی موجودہ زمانہ کا اگرہم جائزہ لیں تو آج ہمیں ہر طرف جھوٹ کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ آج ہر طرف جھوٹ بولا جارہا ہے اور جھوٹ ہی سنا جارہا ہے اور جھوٹ ہی سنایا جارہا ہے اور جھوٹ ہی آگے پھیلایا جارہا ہے، بغیر تحقیق اور سنی سنائی بات کو آگے پھیلانا بھی اتنا ہی برا ہے جتنا جھوٹ بولنا برا ہے حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ’’کسی شخص کے جھوٹے ہونے کیلئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے‘‘۔ آج کے زمانہ کو ٹیکنالوجی کا زمانہ مانا جاتا ہے واقعی اس زمانہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے بڑی ترقی کی ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس کی ایک مثال خبر کا آناً فاناً پوری دنیا میں پہنچ جانا ہے آپ ایک بٹن دبائیں تو وہ خبر دنیا کے کونے کونے میں پھیل جاتی ہے۔ آج کے جدید ذرائع ابلاغ، فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئیٹر ، فیس ٹائم کے ذریعے سے خبر جتنی جلدی لوگوں تک پہنچ رہی ہے اس برق رفتاری کی وجہ سے خبر میں کمزوری آگئی ہے پہلے اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن والوں کے پاس جب کسی ذریعہ سے خبر آتی تھی تو وہ اس کی تصدیق اور اچھی طرح چھان پھٹک کرتے تھے پوری طرح تسلی ہونے کے بعد اسے اخبارات اور ٹیلی ویژن پر نشر کیا جاتا تھا مگر آج اسی خبر کی تصدیق اور صداقت کو جانے بغیر ٹیلی ویژن والے سب سے پہلے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں لوگوں تک جھوٹی اور فیک خبریں پہنچا رہے ہیں اور اس پر بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ کیمرہ اور ویڈیو ہر آدمی کے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے ہر آدمی جو چاہے لکھ کر آگے فاروڈ کردے، جو چاہے جس طرح کی چاہے کسی واقعہ کی یا کسی فرد کی کسی بھی حالت میں ویڈیو بناکر اپ لوڈ کردی اور یو ٹیوب پر ڈال دے لوگوں کو سرعام مارپیٹ قتل اور چھریاں مارنے کی ویڈیو آگے فاروڈ کردے جس کو آج ہر چھوٹا بڑا دیکھ رہا ہے، ایسے ظالمانہ اور درد ناک واقعات کی ویڈیو جب بچے دیکھتے ہیں تو ان کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ہر آدمی اچھی طرح جانتا ہے آج کے دور نے اور میڈیا نے لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ کریمنل ذہن کے لوگ لڑکیوں اور بچوں کی ویڈیو بناتے ہیں اور پھر ان کو بلیک میل کرتے ہیں کہ اگر تم نے کسی کو بتایا تو تمہاری ویڈیو آن لائن کردی جائے گی۔ پھر جھوٹی خبریں دن رات پھیلائی جارہی ہیں کسی کو سمجھ نہیں کہ یہ بات سچ ہے یا جھوٹ بڑے بڑے مولوی حضرات اور سمجھدار لوگ بھی اس کا شکار ہیں کئی لوگوں کی میں اصلاح کرچکا ہوں اور ان کو توجہ دلا چکا ہوں کہ آپ نے جو بات آگے شیئر کی ہے وہ جھوٹی ہے مگر کہاں تک سب کو سمجھایا جاسکتا ہے اللہ ہی رحم فرمائے۔