موبائل فون استعمال پر ٹیکس بحال، 100 روپے کے کارڈ پر 75روپے بیلنس ملے گا، ٹیکسوں کے معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتے، حکم امتناع ختم، سپریم کورٹ نے کیس نمٹادیا

April 25, 2019

اسلام آباد (اے پی پی، جنگ نیوز) سپریم کورٹ نے موبا ئل فون کارڈ پر ٹیکس سے متعلق کیس کا مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے 12 جون 2018ء کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا ہے، جسکے بعد اب 100 سو روپے کے کارڈ پر 100روپے کی بجائے 75روپے کا بیلنس ملے گا جبکہ25 رو پے ٹیکس کی مد میں کاٹے جائیں گے مختصر فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ٹیکس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت کا عبوری فیصلہ برقرار رہا تو ٹیکس کی مد میں حکومتی آمدن 40 فیصد کم ہو جائیگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ لاکھوں لوگوں سےلی گئی بڑی رقم کا ہے، ٹی وی،پانی پرتوٹیکس لگ چکا،اب ہوا پرلگناباقی ہے۔ عدالتی فیصلے پرٹیلی کمیونی کیشن کمپنی کے وکیل نے عدالت سے استفسار کیا کہ ہم ریکوری کس سے کرینگے؟ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے، ریکوری کا معاملہ ہم نہیں دیکھیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ موبائل کارڈ پر عائد ٹیکس سے متاثرہ کسی بھی شہری نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فون کمپنیاں اورصارفین سونےکا انڈہ دینےوالی مرغیاں ہیں۔ بدھ کو چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پراٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ موبائل فون کے صارف کا ٹیکس دہندہ ہونا ضروری نہیں ہے اور یہ ٹیکس ہر صارف سے لیا جاتا ہے، ٹیکس کے معاملات آرٹیکل 184(3) کے زمرے میں نہیں آتے۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ حکومت موبائل کارڈ پر ان شہریوں سے بھی ٹیکس لے رہی ہے جو انکم ٹیکس کے دائرہ میں ہی نہیں آتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں صرف 13؍لاکھ شہری ٹیکس دہندہ ہیں جبکہ دو کروڑ سے زائد شہریوں سے موبائل کارڈوں پر ایڈوانس انکم ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ نان فائلر شہریوں سے انکم ٹیکس لینا انکے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جس پر اٹارنی جنر ل نے کہاکہ اگر عدالت کا عبوری فیصلہ برقرار رہتا ہے تو اسکی وجہ سے ٹیکس کی مد میں حکومتی آمدن 40 فیصد کم ہو جائیگی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں لاکھوں ٹیکس نہ دینے کے قابل شہریوں سے بھی بلواسطہ ٹیکس لیا جاتا رہا ہے۔ عدالت کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ اگر ضرور ی سمجھا گیا تو یہ قرار دیا جائیگا کہ یہ مقدمہ مفاد عامہ سے متعلق نہیں ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ موبائل کارڈ پر عائد ٹیکس سے متاثرہ کسی بھی شہری نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا ہے، کسی ایک شخص نے بھی سپریم کورٹ آ کر یہ نہیں کہا کہ اس کٹوتی سے اس کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں جبکہ چیف جسٹس نے کہاکہ نان فائلرز سے بجلی کے بلوں میں ٹی وی ٹیکس لیا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ٹی وی ٹیکس بنیادی طور پر پی ٹی وی سے متعلق ہے، کیا کوئی جا کر یہ کہہ سکتا ہے کہ میں پی ٹی وی نہیں دیکھتا ہوں اسلئے ٹی وی ٹیکس نہیں دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سابق چیف جسٹس نے سوشل میڈیا پر آنے والے ایک پیغام کی بنیاد پراس معاملے پر ا زخود نوٹس لیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ موبائل کمپنیوں نے ڈھونگ رچا رکھا ہے جو حکومتوں کی چال ہے اسلئے موبائل ٹیکسوں پر ازخود نوٹس لیا جائے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ سوشل میڈیا پریہ پیغام کس کی طرف سے جاری کیا گیا تھا ؟ اس حوالے سے کچھ علم نہیں ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں غلط معلومات کی بھرمار ہوتی ہے۔