جعلی اکاؤنٹس کیس، اندرون سندھ کا نجی کنٹریکٹر نیب کے زیر عتاب

May 16, 2019

اسلام آباد (زاہد گشکوری) اندرون سندھ سے ایک نجی کنٹریکٹر کے کردار نے جعلی اکاؤنٹس تحقیقات میں نیا موڑ دیا ہے جس کے بعد نیب نے 300 ملین روپوں سے زائد کے شواہد ڈھونڈ نکالے جنہیں غیرقانونی طور پر چند کلیدی ملزمان کے اکاؤنٹس میں بھیجا گیا تھا۔ نیب کی مشترکا تحقیقاتی ٹیم سے منسلک تحقیقی افسر کے مطابق حارش اینڈ کمپنی کے سی ای او حارش جی نے تفتیشی افسران کے سامنے تسلیم کیا کہ وہ 24 فیصد منافع ان تمام کنٹریکٹس پر دیتے رہے ہیں جنہیں سندھ حکومت کی جانب سے ان کی کمپنی کو دیا گیا تھا۔ تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ حارش جی نے اپنے بیان میں آدھے درجن کے لگ بھگ ان ملزمان کے ناموں کا انکشاف کیا جنہیں ٹھٹھہ میں ان کے مختلف کنٹریکٹس میں 32 ملین روپے بطور رشوت ادا کئے گئے۔ ساڑھے سات ملین روپے کلیدی افراد میں سے ایک نے سابق صدر آصف علی زرداری کے مبینہ فرنٹ مین ندیم بھٹو کو بھیجے۔ نیب تحقیقات میں مزید انکشاف کیا گیا کہ سندھ حکومت کے اسپیشل انیشی ایٹو ڈپارٹمنٹ کی جانب سے غیرقانونی کنٹریکٹ دیے جانے کے حوالے سے سابق صدر زرداری اور دیگر افراد جعلی بینک اکاؤنٹس اسکیم میں ملوث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیب نے آج زرداری کو طلب کیا ہے۔ تحقیقات میں سابق صدر آصف علی زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس میں مرکزی ملزم کی حیثیت سے سامنے آئے۔ نیب دستاویزات کے مطابق زرداری کے خلاف قرضوں میں توسیع میں ان کے مبینہ کردار اور M/s پارتھینن پرائیوٹ لمیٹڈ اور M/s پارک لین اسٹیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ کی جانب سے اس کے خورد بردپر تفتیش جاری ہے۔ انکوائری کے مطابق زرداری اور دیگر افراد 2014/15 کے دوران گنے کے کاشتکاروں کی سبسڈی کے خوردبرد کے حوالے سے مبینہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اسکیم میں ملوث ہیں۔ جیو نیوز کو دستیاب دستاویزات میں انکشاف ہوا کہ ایک اور تفتیش کے مطابق سابق صدر زرداری کی جانب سے توشہ خانہ سے گاڑیوں کی جعلی خریداری اور جعلی بینک اکاؤنٹس سے امپورٹ ڈیوٹی کی ادائیگی کے حوالے سے سرکاری دفتر رکھنے والے، قانونی افراد اور دیگر افراد جعلی اکاؤنٹس اسکیم میں ملوث ہیں۔ تفتیش کے مطابق جعلی اکاؤنٹس میں 8.3 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کے حوالے سے زرداری اور دیگر افراد جعلی بینک اکاؤنٹس اسکیم میں ملوث ہیں۔ دستاویز کے مطابق سندھ حکومت کے کئی محکموں کی جانب سے میگا کنٹریکٹس دینے کے حوالے سے جعلی بینک اکاؤنٹس اسکیم میں سرکاری دفتر رکھنے والے، قانونی افراد اور دیگر افراد ملوث ہیں۔ انکوائری کے مطابق زرداری گروپ کی جانب سے جے وی اوپال 225 میں 1.22 ارب روپے کا منافع لینے کے حوالے سے جعلی بینک اکاؤنٹس اسکیم میں زرداری اور دیگر افراد ملوث ہیں۔ زرداری، فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ انہوں نے نیب ٹیم کے سامنے اپنا جواب جمع کرادیا ہے، وہ قانونی بنیادوں پر اپنا کیس لڑ رہے ہیں اور ان کے موکل کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ فاروق نائیک نے جیو نیوز کو بتایا کہ آخر کار ہم ان مقدمات کو جیت لیں گے جیسا کہ وہ سب الزامات ہیں، یہ سیاسی نشانہ بنانے کا عمل ہے۔ جعلی اکاؤنٹس کیس سے متعلق دیگر انکوائریوں کے درمیان زرداری اور دیگر کے خلاف ایک انکوائری گاڑیوں کی خریداری اور جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے امپورٹ ڈیوٹی کی ادائیگی سے متعلق ہے۔ دستاویز کے مطابق سندھ میں چلنے والے نئے کیپٹو پاور پلانٹس کو غیرقانونی سبسڈی کے حوالے سے کئی ملزمان جعلی بینک اکاؤنٹس اسکیم میں ملوث ہیں۔ انکوائری کے مطابق سندھ ٹریکٹر سبسڈی اسکیم میں خوربرد، سندھ نوری آباد پاور کمپنی اینڈ سندھ ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے پراجیکٹس میں M/s ٹیکنومین کائینیٹک پرائیوٹ لمیٹڈ اور دیگر کو غیرقانونی رعایت دینے، قرضہ حاصل کرنے کیلئے پاور پراجیکٹس کی زیادہ قیمت کے ذریعے کرپٹ پریکٹسز اور M/s دادو انرجی، اومنی پاور، اوریئنٹ انرجی سسٹم اور دیگر کی جانب سے خوردبرد ، سمٹ بینک کے غیرقانونی قیام اور توسیع، ٹھٹھہ شوگر مل کی کوڑیوں کے مول فروخت کے حوالے سے سرکاری دفتر رکھنے والے، قانونی افراد اور دیگر افرادجعلی بینک اکاؤنٹس اسکیم میں ملوث ہیں۔