مہنگائی دگنی ہوگئی، مزید بڑھے گی، شرح سود 1.5 بڑھاکر 12.25 فیصد کردی گئی، روپیہ 5.93 فیصد سستا، حکومت نے 4800 ارب قرض لیا، مالیاتی خسارہ بڑھے گا، اسٹیٹ بینک

May 21, 2019

کراچی(اسٹاف رپورٹر )مہنگائی دگنی ہوگئی، مزید بڑھے گی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے آئندہ 2ماہ کے لئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا گیا، اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 1اعشاریہ5فیصد اضافہ کردیا جس کے بعد شرح سود 10اعشاریہ75سے بڑھ کر 12اعشاریہ25فیصد ہوگئی ، روپیہ 5 اعشاریہ 93 فیصد سستا ہوگیا، حکومت نے 4800ارب قرض لیا، مالیاتی خسارہ بڑھے گا،شرح سود بڑھنے کے باجود نجی شعبے کے قرض میں اضافہ ہوا ، شرح نمو میں بہتری کا امکان ہے، ترسیلات زر بڑھ گئیں، کرنٹ اکائونٹ خسارہ 29فیصد کم ہوگیا،طلب و رسد کے حالات سے شرح مبادلہ پر دبائو رہا،مہنگائی کی اوسط شرح3اعشاریہ 8سے بڑھ کر7فیصد ہو گئی، 3ماہ میں خوراک، ایندھن اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھیں،غیر ملکی ذخائر3ماہ کی ادائیگی سے بھی کم صرف 8.8 ارب ڈالر زرہ گئے،برآمدی حجم بڑھنا شروع ہوگیا،ناسازگار نرخوں کے باعث مجموعی برآمدی وصولیاں نہ بڑھ سکیں،جاری کھاتے کا خسارہ 9ارب60کروڑ ڈالر ،نان آئل تجارتی خسارہ 11 ارب ڈالر زرہ گیا۔ تفصیلات کےمطابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کی زیر صدارت مانیٹری پالیسی کا اجلاس پیر کوصدر دفتر میں ہوا جس کے بعد آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا گیا، اسٹیٹ بینک کے مطابق مانیٹری پالیسی سخت کیے جانے کے باوجود نجی شعبے کا قرض 9اعشاریہ 4فیصد بڑھا ہے۔مانیٹری پالیسی کے مطابق مہنگائی کی اوسط شرح گزشتہ سال 3اعشاریہ8فیصد کے مقابلے میں 7فیصد ہو گئی ہے، اسٹیٹ بینک کے اعلامیے کےمطابق گزشتہ 3ماہ میں خوراک، ایندھن اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں کافی اضافہ ہوا، اگلے سال مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کا امکان ہے۔تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک پاکستان نے آئندہ 2ماہ کے لئے شرح سود کو 1.5فیصدبڑھاتے ہوئے اگلے سال مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کا امکان ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ مانیٹری پالیسی سخت کیے جانے کے باوجود نجی شعبے کا قرض 9اعشاریہ 4فیصد بڑھا ہے۔ زری پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2019ء میں زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے تین نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ اوّل، حکومت ِپاکستان کا عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ اسٹاف کی سطح پر 39 ماہ پر محیط توسیعی فنڈ سہولت کے تحت تقریباً 6ارب ڈالرز کے لیے اتفاق ہوگیا ہے، پروگرام کا مقصد معاشی استحکام بحال کرنا اور پائیدار معاشی نمو میں معاونت کرنا ہے اور توقع ہے کہ اس کے نتیجے میں خاصی مزید بیرونی مالکاری آئے گی۔ دوم، مالی سال 18ء کی اسی مدت سے موازنہ کیا جائے تو حکومتی قرض کے رجحانات مالی سال19ء کے پہلے 9ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے مالی خسارے کی عکاسی کرتے ہیں۔علاوہ ازیں خسارے کی مالکاری کے لیے مرکزی بینک پر زیادہ انحصار نے پچھلی زری سختی کے اثر کو ہلکا کردیا ہے۔ اخراً، گذشتہ زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس سے اب تک شرح مبادلہ میں 5.93فیصد کمی آئی ہے اور 20مئی 2019ء کے اختتام پر 149.65روپے کی قدر فی امریکی ڈالر پر پہنچ گئی ہے جس سے مضمر معاشی عوامل اور مارکیٹ کے احساسات کے امتزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 19ء میں معاشی نمو سست ہونے جبکہ مالی سال 20ء میں کسی قدر بڑھنے کی توقع ہے،یہ سست رفتاری زیادہ تر زراعت اور صنعت کی پست نمو کی وجہ سے ہے۔ مالی سا ل 19ء میں حقیقی جی ڈی پی نمو کا دوتہائی سے زائد حصہ خدمات سے آنے کی توقع ہے، آگے چل کر آئی ایم ایف کی مدد سے چلنے والے پروگرام، شعبہ زراعت میں تیزی اور برآمدی صنعتوں کے لیے حکومتی ترغیبات کے تناظر میں مارکیٹ کے احساسات بہتر ہونے کے طفیل معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بحالی کی توقع ہے۔بیرونی شعبے کے حوالے سے زری پالیسی میں بتایا گیا کہ جولائی تا مارچ مالی سا ل 19ء میں پچھلے سال کی اسی مدت کے 13.6 ارب ڈالر کے مقابلے میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوکر 9.6 ارب ڈالر رہ گیا یعنی 29 فیصد کمی ہوئی۔ اس کمی کا بنیادی سبب درآمدی کمی اور کارکنوں کی ترسیلات ِزر کی بھرپور نمو ہے۔ یہ اثر تیل کی بلند عالمی قیمتوں کی وجہ سے جزوی طور پر زائل ہو گیا۔ نان آئل تجارتی خسارہ جولائی تا مارچ مالی سال 18ء کے 13.7 ارب ڈالر سے گھٹ کر جولائی تامارچ مالی سال 19ء میں 11ارب ڈالر رہ گیا جس سے جنوری 2018ء میں استحکام کی اب تک نافذ کردہ پالیسیوں کے اثر کی عکاسی ہوتی ہے۔حالیہ اظہاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ برآمدی حجم بڑھنا شروع ہوگیا ہے، گوکہ ناسازگار نرخوں کی بنا پر مجموعی برآمدی وصولیاں نہیں بڑھی ہیں۔جاری کھاتے میں بہتری اور سرکاری دوطرفہ رقوم کی آمد میں قابل ذکر اضافے کے باوجود جاری کھاتے کے خسارے کی مالکاری میں دشواریاں درپیش رہیں۔ نتیجے کے طور پر ذخائر آخر مارچ 2019ء میں 10.5 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 مئی 2019ءکو 8.8 ارب ڈالر ہوگئے۔گذشتہ چند دنوں میں طلب و رسد کے حالات کی بناء پر شرح مبادلہ بھی دبائومیں آگئی۔ مزید برآں ذخائر کی موجودہ سطح کفایت کی معیاری سطح (3ماہ کی درآمدات کے مساوی)سے نیچے ہے۔ جیسا کہ گزشتہ زری پالیسی بیانات میں کہا گیا، بھرپور ساختی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ برآمدی شعبوں کی پیداواریت اور مسابقت بہتر ہو اور تجارتی توازن میں بہتری آئے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق محاصل کی وصولی میں کمی، بجٹ سے بڑھ کر سودی ادائیگیوں اور امن و امان سے متعلق اخراجات کی بنا پر جولائی تا مارچ مالی سال 19ء کے دوران مجموعی مالیاتی خسارہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں خاصا بلند رہنے کا امکان ہے۔زری پالیسی کے نقطہ نظر سے مالیاتی خسارے کا بڑھتا ہوا حصہ اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر پورا کیا گیا ۔مطلق لحاظ سے یکم جولائی سے 10مئی مالی سال 19ء کے دوران حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 4.8 ٹریلین روپے قرض لیے جو پچھلے برس کے اسی عرصے میں لی گئی رقم کا 2.4 گنا ہے۔ اس قرض کا بڑا حصہ (3.7 ٹریلین روپے) کمرشل بینکوں سے ہٹاوکی عکاسی کرتا ہے جو موجودہ شرحوں پر حکومت کو قرض دینے سے ہچکچا رہے تھے،اس کے نتیجے میں خسارے کی بڑھی ہوئی تسکیک نے مہنگائی کے دبائومیں اضافہ کیا ہے۔زری پالیسی کی حالیہ سختی کے باوجود یکم جولائی تا 10مئی مالی سال 2019ء کے دوران نجی شعبے کے قرض میں 9.4 فیصد اضافہ ہوا، قرض میں بیشتر اضافہ خام مال کی اضافی قیمتوں کے باعث جاری سرمائے کے لیے تھا۔ زر ِوسیع (ایم ٹو) کی رسد پر بلند حکومتی قرض اور نجی شعبے کے قرضے کا توسیعی اثر بینکاری شعبے کے خالص بیرونی اثاثوں میں کمی کی وجہ سے جزواً زائل ہوگیا۔ مجموعی طور پر یکم جولائی تا 10مئی مالی سال 2019ء کے دوران زرِ وسیع کی رسد 4.7 فیصد بڑھ گئی۔ صارف اشاریہ قیمت سال بسال بنیاد پر مارچ 2019ء میں 9.4 فیصد اور اپریل 2019ء میں 8.8 فیصد بڑھا۔اوسط عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی جولائی تا اپریل مالی سال 19ء میں 7 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں 3.8 فیصد تھی۔ مزید برآں، ایندھن کی ملکی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور غذائی اشیا کے بڑھتے ہوئے نرخوں اور خام مال کی اضافی لاگت کی بنا پر گزشتہ تین ماہ میں سالانہ بنیاد پر ماہ بہ ماہ عمومی مہنگائی خاصی بڑھی ہے۔