وہ ایک لمحہ … !

June 14, 2019

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
برطانیہ اور دوسرے ممالک میں صبح سویرے اٹھ کر شام گئے محنت مزدوری کرکے جب لوگ گھروں میں آتے ہیں تو اکثر وطن عزیز سیاسی اکھاڑوں میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ سے بے خبر ہوتے ہیں، بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ اس پر کچھ خبریں مل ہی جاتی ہیں مگر دل یہ چاہتا ہے کہ کوئی پاکستانی نیوز چینل لگا کر حالات سے مکمل آگاہی حاصل کی جائے، میں جب پونے آٹھ (پاکستانی رات پونے بارہ) بجے گھر پہنچا تو ایک نیوز چینل لگا کر آٹھ بجے کی ہیڈ لائنز کا انتظار کرنے لگا، مجھے سوشل میڈیا نے پہلے ہی یہ اطلاع دے دی تھی کہ حمزہ شہباز کو گرفتار کرلیا گیا ہے، آصف زرداری کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا گیا، قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کی خوب ’’آئو بھگت‘‘ کی ہے، جسے وہ ’’خندہ پیشانی‘‘ سے برداشت کرتے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ آج وزیراعظم قوم سے خطاب بھی کریں گے۔ دراصل یہ خطاب انہوں نے پہلے ہی ریکارڈ کرا لیا تھا، محض فنی خرابیوں کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی تھی، ٹی وی پر اس وقت ایک شو چل رہا تھا جو اپنے آخری مرحلے میں تھا اور ایک خوبصورت گلوکارہ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ اچانک رات بارہ بجے کے قریب گانا غائب ہوگیا اور تلاوت کلام پاک شروع ہوگئی، میں اس پر شدید حیران ہوا، ایک لمحے کے اندر اندر نجانے میرے ذہن میں کیا کیا وسوسے آگئے کیونکہ ماضی میں ایسا صرف اس وقت ہوا کرتا تھا جب ملک کے واحد ٹی وی چینل پر ’’بوٹوں والوں‘‘ نے آنا ہوتا تھا اور وہ اللہ پاک کا نام لے کر فرمایا کرتے تھے کہ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا، سیاسی خلفشار سے ملک کو شدید نقصان پہنچا، نااہل حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے، ملک کے وسیع تر مفاد میں ہم نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ انشاء اللہ۔ تین ماہ میں انتخابات کراکے اقتدار قومی حقیقی نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے۔ لیکن یہ3 ماہ ہر بار دھائی یا اس کے آس پاس کے عرصہ پر مشتمل ہوتے تھے، میں نے اس ایک لمحے میں سوچا کہ شاید آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کے بعد حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے ہیں اور شاید خدانخواستہ ملک کا کنٹرول سنبھالنے پر کوئی اور آگیا ہے ؟ جو ابھی ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کہے گا۔ چینل پر غلطی سے کوئی دوسرا پروگرام شروع ہوگیا ہے۔ میں نے دو تین نیوز چینلز لگائے سب پر تلاوت چل رہی تھی، میں نے سوچا ضرور دال میں کچھ کالا ہے تاہم اگلے ہی لمحے جب میں نے ایک ٹکر پڑھا تو اس پر لکھا تھا کہ وزیراعظم چند منٹوں بعد قوم سے خطاب کرنے والے ہیں، میں خالق حقیقی کا شکر بجا لایا کہ ملک میں کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ حکمران سیاسی قوت اور ’’حقیقی قوتیں‘‘ ایک پیج پر ہیں تو پھر مارشل لا کیسے لگ سکتا ہے ؟ پھر یہ بھی خیال آیا کہ شاید یہ سمجھ گیا ہو کہ جمہوریت کو گیارہ سال دے کر ضائع کر دیئے گئے، اس لئے ’’تبدیلی‘‘ آنی ضروری ہوگئی ہے ! تاہم وہ لمحہ خیریت سے گزرا تو جناب وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو ’’کھڑکانا‘‘ شروع کر دیا اور شروع سے آخر تک اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی ! اس دوران انہیں نہ کسی نے ٹوکا نہ روکا، نہ کسی نے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ان کی طرف پھینکیں اور نہ کوئی دوسرا سامنے بیٹھا تھا کہ جو ان کی ’’باتوں‘‘ کا جواب دیتا، نہ وہاں کوئی صحافی تھا کہ جو ان سے پوچھتا کہ سارے ’’نت‘‘ تو اندر ہیں، پھر آپ گنڈاسہ لے کر باہر کیوں نکل آتے ہیں ؟ نہ یہ کوئی جلسہ عام تھا کہ جس میں مخالفین شور مچاتے، یہ تو ایک پرائیوٹ جگہ تھی جس میں سب ان کے ’’اپنے‘‘ (جو پہلے دوسروں کے بھی ہوا کرتے تھے) تھے۔ سب کچھ لائیو آن ائر بھی نہیں جا رہا تھا، سو انہوں نے اسمبلی میں اپنے ساتھ ہونے والے سلوک، بلاول بھٹو کی کڑوی کسیلی باتوں، مریم اورنگزیب کے طعنوں اور مولانا کی ’’بھڑکوں‘‘ کا تسلی کے ساتھ جواب دیا اور یقیناً رات کے ایک بجے اپنا خطاب پاکستان کے سارے نیوز چینلز پر دیکھنے کے بعد ان کو خوب اچھی نیند آئی ہوگی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس سے قبل کسی سیاسی وزیراعظم نے سرکاری اور دوسرے ٹی وی چینلز کو ’’قوم سے خطاب‘‘ کے بہانے اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کیا ہو، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تو یہ کام مارشل لا دور میں آمر کیا کرتے تھے جو عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے تھے، جن کے لئے ان کی مرضی کا الگ اخبار چھپا کرتا تھا، جس میں صرف ان کی تعریف ہوتی تھی، بالآخر ’’انہوں‘‘ نے بھی کہہ دیا تھا کہ کاش ان تک زبان خلق کی آواز پہنچنے دی گئی ہوتی ؟