خیبر پختونخوا کا نیا میزانیہ

June 20, 2019

منگل کے روز صوبہ خیبر پختونخوا کا مالی سال 2019-20کا جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں کچھ باتیں قبل ازیں سامنے آنے والے پنجاب اور سندھ کے میزانیوں سے مختلف نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں سرکاری ملازمین کے ریٹائرمنٹ کی عمر 63سال کردی گئی ہے جس سے حکومتی موقف کے مطابق ہر سال اندازاً 20ارب روپے کی بچت ہوگی۔ مذکورہ فیصلے میں نئی بھرتیوں کے لئے زائد اخراجات سے وقتی طور پر بچنے کا پہلو مضمر ہے مگر مبصرین ملک میں بیروزگاری کی بلند ہوتی شرح کے پیش نظر اس کے بعض منفی زاویوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جس پر بہر طور غور کیا جانا چاہئے۔ اس بجٹ میں تعلیم، صحت اور قبائلی علاقوں کی ترقی کو خاص اہمیت دی گئی ہے جبکہ ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے تناظر میں وزرا کی تنخواہیں کم کرنے کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی کے دوران صوبے کا نو سو ارب روپے کا سر پلس بجٹ پیش کیا، جس میں سالانہ ترقیاتی پروگراموں کیلئے 319ارب روپے مختص کئے گئے۔ آئندہ مالی سال میں صوبائی حکومت کے اخراجات کا کل تخمینہ 855ارب روپے لگایا گیا، اس طرح سال کے آخر میں کے پی حکومت کو 45ارب روپے کی بچت ہوگی۔ وفاق کی طرح صوبے میں بھی گریڈ ایک سے 16تک دس فیصد جبکہ گریڈ 17سے 19کے ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الائونس کے تحت 5فیصد اضافہ البتہ گریڈ 20سے 22تک ملازمین کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ پنشن میں 10فیصد اضافہ اورکم از کم اجرت 17ہزار 500کردی گئی۔ صوبے بھر میں صحت کارڈ کے اجرا سمیت ہیلتھ بجٹ کو 46ارب روپے سے بڑھا کر 55ارب روپے کردیا گیا، بجٹ میں آمدن پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے ساتھ ساتھ دس ہزار روپے ماہانہ کمانے والوں پر بھی ٹیکس کے نفاذ کی سفارش کی گئی ہے جو یقیناً غریب آدمی کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں۔ واضح رہے کہ صوبائی بجٹ میں قبائلی علاقوں کو پہلی بار شامل کرتے ہوئے مجموعی طور پر ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 162ارب روپے جاری کئے جائیں گے۔