کراچی کے چند قدیم جزیرے

June 20, 2019

نوشابہ فہیم

دنیا بھر میں گہرے سمندروں کے بیچوں و بیچ پھیلے ہوئے جزائر اس ربِ ذوالجلال کے ثبوتِ وحدانیت میں شامل ہیں۔درجنوں ممالک ایسے ہیں جو جزائر پر ہی قائم ہیں۔جس طرح یورپی ممالک میں جزائر ہیں ،اسی طرح اللہ تعالی نے پاکستان کو بھی ان سے محروم نہیں رکھا۔ پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے سمندری علاقوں میں لگ بھگ 12جزیرے موجود ہیں ،جن میں بلوچستان کے اسٹولا جزیرے کو سب سے بڑا جزیرہ قرار دیا جاتا ہے، جبکہ میلان اور زلزلہ کوہ جزیرہ بھی رقبے کے لحاظ سے وسیع ہے۔

اگر کراچی کی بات کی جا ئے تو یہاں بھی بابا آئی لینڈ، بابا بھٹ، پیر شمس، منوڑہ، کلفٹن راک، ہاکس بے، چرنا آئی لینڈ اور کیرا والا جزائر شامل ہیں۔ شہر کراچی کی سمندری حدود میں ایسے چار جزائر واقع ہیں ،جن پر ہزاروں کی تعداد میں ماہی گیر صدیوں سے آباد ہیں۔ منوڑہ جزیرے پر باقاعدہ لائٹ ہاؤس قائم ہے جو رات کے وقت اپنی روشنی سے بحری جہازوں کو بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے میں مدد کرتا ہے، بلکہ یہاں باقاعدہ طور پر پاکستان نیوی کے ٹریننگ سینٹرز بھی موجود ہیں، جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی یہاں رہتی ہے۔ اس جزیرے کے بارے میں مؤرخین کا کہنا ہے کہ، شہر کراچی کا آغاز اسی جزیرے سے ہوا تھا، جہاں ایک فصیل کے اندر پورا شہر آباد ہوا کرتا تھا جو اب صرف قصے کہانیوں میں زندہ ہے۔

اسی کے ساتھ بابا بھٹ نامی جزیرہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بہت پہلے صرف ایک بڑی چٹان جتنا جزیرہ تھا۔ ’’بھٹ‘‘ کچھی اور سندھی زبانوں میں ’’چٹان‘‘ کو کہا جاتا ہے، اس لیے یہ جزیرہ بھی ’’بھٹ‘‘کہلانےلگا۔ یہ جزیرہ پہلے ایک چھوٹے سے جزیرے پر مشتمل تھا، مگر سیکڑوں سال کے دوران سمندر کے 50 میل پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے آج یہ جزیرہ بھی بہت بڑا ہوچکا ہے ،جہاں نہ صرف بزرگان دین آسودہ خاک ہیں، بلکہ اس جزیرے پر رہنے والے مچھیرے بھی کچے پکے مکانوں میں قیام پذیر ہیں۔ اس جزیرے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں صدیوں پرانے آثارِ قدیمہ بھی موجود ہیں، جن میں لکڑی کے تختوں سے بنا ایک ہوٹل جو آج بھی اسی انداز میں موجود ہے اور اس جزیرے کی قدامت بیان کر رہا ہے۔

اس جزیرے سے کچھ ہی فاصلے پر بابا آئی لینڈ نامی جزیرہ موجود ہے، جہاں کی جیٹی سے لے کر آبادی تک، دور دور تک ماسوائے غربت اور افلاس کے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس جزیرے پر بھی لکڑی کے پرانے قدیم گھر موجود ہیں جو ٹوٹی پھوٹی لکڑیوں سے بنائے گئے ہیں۔ دیواروں سے گھر کے مکینوں کی حالت عیاں ہے، اس جزیرے پر ایک نہیں بلکہ 2 ٹوٹی پھوٹی جیٹیاں ہیں، جن میں سے ایک جیٹی ’’کوئلہ جیٹی‘‘ کہلاتی ہے، جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں ماضی میں سر ایڈلجی ڈنشا اور کاؤس جی کوئلے کا کاروبار کیا کر تے تھے اور منگایا جا نے والا کوئلہ صا ف کرکے بحری جہازوں، ٹرینوں اور ٹراموں کو چلانے کےلیے استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ ماضی میں بحری جہاز، ٹرینیں، ٹرامیں بھاپ سے چلا کرتی تھیں، جسے بنانے کےلیے کوئلہ جلایا جاتا تھا۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ جزیرہ، جو انتہائی قدیم ہے اور جہاں لوگوں کی گزر بسر کا انحصار صرف مچھلی کے شکار پر ہے، اور جہاں کے باسیوں کو ہر سال جون جولائی کے مہینوں میں بلند سمندری موجوں (ہائی ٹائیڈ) کی وجہ سے شکار نہ ملنے کے باعث کئی کئی دنوں تک فاقے کرنا پڑتے ہیں، اسی جزیرے کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ماہِ ربیع اول کا اعلان ہوتے ہی یہاں کے باسی اپنی مدد آپ کے تحت لال رنگ کے کپڑوں اور سبز جھالروں کی مدد سے شامیانے بناکر پورے جزیرے کو انتہائی خوبصورتی سے سجا دیتے ہیں اور ان ہی شامیانوں میں رنگ برنگے برقی قمقمے لگا دیتے ہیں۔اس جزیرے پر بھی ایک نہیں بلکہ دو بزرگوں کے مزارات بھی ہیں، جہاں اکثر و بیشتر روحانی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔

اسی جزیرے سے خاصے فاصلے پر وہاں مدفون بزرگ حاجی پیر شمس کے نام سے ایک اور جزیرہ بھی ہے، جس کے بارے میں مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ قدیم ترین جزیرہ ہے، جہاں پہلے بدھ مت کے ماننے والے آباد تھے۔ یہاں بھی غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کے دل بہت بڑے ہیں، جنہوں نے اپنے گھروں کے در و دیوار کو پختہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی لیکن انہوں نے عین جزیرے کی جیٹی کے سامنے ایک عالیشان مسجد سے تیار کروائی ہے جو نہ صرف خوبصورتی کی اعلی مثال ہے بلکہ اس میں نمازیوں کی تعداد بھی دیگرمساجد سے زیادہ رہتی ہے،اس جزیرے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس پر عین سمندر کے نزدیک ایک علاقے میں پتھروں کے مینار پیدا ہوگئے ہیں اور ان کی اونچائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس جزیرے پر کبھی کوئی قدیم مندر موجود تھا، مگر، اس کے باوجودمحکمہ آثار قدیمہ یا کسی اور نے ان جزیروں پر، جنہیں مؤرخین 300 سے 1000 سال پرانے قرار دیتے ہیں، کبھی تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی۔

ان تمام جزائر پر پانی، بجلی، گیس کی سہولیات تو موجود ہیں، مگر باقاعدہ طور پر بجلی کے بل ادا کرنے کے باوجود یہاں کے بسنے والے 18 گھنٹے بجلی سے محروم رہتے ہیں۔ لوگ 150 روپے سے 200 روپے فی ڈرم کے حساب سے پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔

ان تمام جزیروں کو صحت کی سہولیات فراہم کر نے کےلیے حکومت نے ڈسپنسریاں قائم کر رکھی ہیں، مگر ان ڈسپنسریوں میں ڈاکٹر اور ادویہ موجود ہی نہیں اور نہ ہی بیماروں کو اسپتال پہنچانے کے لیے کسی قسم کی لانچ ایمبولنس کا بندوبست ہے، جس کے سبب یہاں بیمار پڑنے والے لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں؛ مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔