نظام حیدرآباد کے 7؍ ارب روپے کی ملکیت، پاکستان اور بھارت لندن ہائیکورٹ میں

June 26, 2019

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) پاکستان اور بھارت نظام حیدرآباد دکن کی برطانیہ کے نیٹ ویسٹ بنک میں رکھوائی گئی رقم کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے لندن ہائی کورٹ میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ بھارت کے ساتھ نظام کے ورثا بھی شامل ہیں۔ نظام عثمان علی خان مرحوم نے1947 میں قیام پاکستان کے وقت ایک ملین پونڈ پاکستان کو لندن بنک اکائونٹ میں رکھنے کے لئے دیئے تھے اور70 برسوں میں سود کی وجہ سے اب اس کی مالیت 35 ملین پونڈ تک پہنچ گئی ہے۔ لندن ہائی کورٹ اب یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ رقم پاکستان کی ملکیت ہے یا نظام کے ورثا کی، جنہوں نے اس پر کنٹرول کے لئے بھارت سے ہاتھ ملایا ہے۔ نظام کے ورثا میں پرنس مکرم جاہ آٹھواں نظام ہے اور ان کے چھوٹے بھائی مخفم جاہ نے اس رقم کے حصول کیلئے بھارت سے ہاتھ ملایا ہے، یہ رقم نیٹ ویسٹ بنک میں رکھی ہے۔ اس رقم کی اصل مالیت1007940 پونڈ تھی جو اس وقت نظام نے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو ٹرانسفر کی تھی۔ اس کیس کے دو ہفتے کے ٹرائل کی صدارت جسٹس مارکوس سمتھ کریں گے، جن کو دونوں جانب کے دلائل پیش کر دیئے گئے ہیں۔ اس کیس میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے خلاف نظام کے ورثا بھارت اور بھارت کے صدر سمیت سات افراد لسٹڈ ہیں۔ جج دو ماہ کے اندر اس مرکزی سوال کا فیصلہ کرے گا کہ 35 ملین پونڈ کی رقم کا مالک کون ہے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں نظام نے یہ پیسہ پاکستان کیلئے بھیجا تھا۔ یہ رقم ان کی جانب سے پاکستان کےعوام کیلئے تحفہ تھی۔ ساتویں نظام کی ٹرانسفر کردہ ایک ملین کی رقم اس وقت پاکستان کے ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ نے نیٹ ویسٹ بنک میں جمع کروائی تھی اور سفیر نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا تھا کہ آپ نے جس رقم کی نشاندہی کی ہے، وہ میرے نام کے ساتھ ٹرسٹ میں رکھی جائے گی۔ دعوے داروں کیلئے کام کرنے والی لا فرم کے پارٹنر پال ہیوٹ نے کہا کہ ساتویں نظام کے جانشین مکرم جاہ اور ان کے چھوٹے بھائی دہائیوں سے وہ حاصل کرنے کے منتظر ہیں، جو ان کے گرینڈ فادر نے انہیں تحفے میں دیا تھا۔ پاکستان نے70 سال تک رسائی کو بلاک کئے رکھا تھا اور ہمیں امید ہے کہ حالیہ ٹرائل میں اس معاملے کو بالآخر حل کر لیا جائے گا۔