کُل جماعتی کانفرنس اور معاشی بدحالی

June 28, 2019

اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس کی جانب سے حکومتی پالیسیوں کے خلاف پارلیمان کے اندر اور باہر احتجاج کا فیصلہ جہاں ایک طرف سیاسی درجہ حرارت بڑھائے گا وہاں ملک کو درپیش معاشی بحران میںاضافے کا بھی سبب بنے گا۔ بدھ کے روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت ہونے والی کانفرنس کے اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن حکومت کو کسی صورت برداشت کرنے پر تیار نہیں ہے۔ آٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں شہباز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، یوسف رضا گیلانی، اسفند یار ولی اور دیگراپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی، بعد میںاپوزیشن رہنمائوں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کو آئینی طریقے سے ہٹانے پر اتفاق کیا ہے، نئے چیئرمین سینیٹ کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کرے گی، انہوں نے کہا کہ دھاندلی زدہ عام انتخابات کے خلاف 25جولائی کو یومِ سیاہ منانے اور عوامی رابطہ مہم چلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ بجٹ، قومی ترقیاتی کونسل، قرضہ کمیشن اور ججز کے خلاف ریفرنسز کو مسترد کیا گیا، اپوزیشن جماعتیں چاروں صوبوں میں مشترکہ جلسے کریں گی۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک طرف سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری جانب معاشی میدان سے بھی کوئی خوشگوار خبر سننے کو نہیں مل رہی، بدھ ہی کے روز ڈالر اور سونے کی قدر میںریکارڈ اضافہ دیکھنے میںآیا، ڈالر 6.80روپے مہنگا ہوکر 164روپے پر پہنچ گیا۔ عالمی مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت میں 25ڈالر کی نمایاں کمی کے باوجود پاکستان میں سونا 500روپے مہنگا ہو گیا اور اس کی فی تولہ قیمت 81ہزار روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی ایف اے ٹی ایف کے بارے میں پھیلنے والی منفی خبروں اور سیاسی کشیدگی کے باعث بدھ کو کاروبار کے آغاز میں مندی چھائی رہی اگرچہ دوسرے سیشن میں صورتحال قدرے بہتر ہوئی مگر 100انڈیکس مزید 102پوائنٹس کم ہو گیا۔ ادھر حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گیس قیمتوں میں 191فیصد تک اضافے اور 300یونٹ سے زائد پر بجلی 1.49روپے مہنگی کرنے کی مشروط منظوری دے دی ہے جبکہ نیپرا نے بھی بجلی کے فی یونٹ پر 10پیسے بڑھا دیئے ہیں۔ ادارہ شماریات پاکستان کی جاری کردہ ہفتہ وار رپورٹ میں مہنگائی کی شرح میں 11.87فیصد اضافہ کا ’’مژدہ‘‘ سنایا گیا۔ یہاں یہ حقیقت بھی مدِنظر رکھنی چاہئے کہ حکومت اپنے تئیں ملک کی معاشی بنیادیں درست کرنے کی بھرپور سعی کر رہی ہے۔ اس نے معیشت کو دستاویزی بنانے اور ٹیکس نیٹ میں اضافے کا فیصلہ کرکے اقتصادی صورتحال کو مستحکم کرنے کا جو عزم کیا ہے، اس پرہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ حکومت معیشت کی بہتری کے لیے سنجیدہ ہے۔امیرِ قطر کا حالیہ دورہ اور قطر سمیت دوست ممالک سے قرض اور سرمایہ کاری کا معاہدہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے تھا۔ملک کو اس وقت معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ دنیا کی تاریخایسی ایک بھی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کہ کسی ملک نے سیاسی طور پر مستحکم ہوئے بغیر معاشی و اقتصادی ترقی کی منازل طے کی ہوں۔یہ قومی بقا، حکومتی اور ریاستی ڈھانچے اور عوام کی زندگی سے براہِ راست جڑے وہ حقائق ہیں جن میں حکومت اور اپوزیشن کو مل جل کر کام کرنا چاہئے۔ معیشت کی بحالی کو قومی ذمہ داری سمجھ کر حکومت اور اپوزیشن، دونوں کو کام کرنا ہوگا۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ پارلیمان کے فورم سے جبکہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے وسائل سے مسائل کا حل تلاش کرے۔ مزید براں اپوزیشن کی تجاویز پر سنجیدگی سے توجہ دے۔ فیصلہ سازوں کو پالیسیاں مرتب کرتے وقت پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ قومی چیلنجز کے پیش نظر سیاسی بالغ النظری کا مظاہرہ اور جمہوری عمل کے تسلسل میں ملک و قوم کا مفاد مضمر ہے۔