لاہور پراسیس: فکر امنِ عالم

June 30, 2019

مصورِ پاکستان علامہ اقبال جنہیں ایران، افغانستان، ترکی اور 90کی دہائی کے آغاز پر دم توڑتے سوویت یونین سے آزاد ہونے والی وسط ایشیائی مسلم ریاستوں میں ’’اقبال لاہوری‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے اور دنیائے اسلام انہیں حکیم الامت مانتی ہے،کے فلسفیانہ کلام کا حاصل تمام عالم ’’احترام آدمیت‘‘ ہی جانتا ہے، جس کا ذریعہ کشف (Source of Inspiration) قرآن کریم اور خطبہ حجۃ الوداع کے عالمی امن کے منشور میں عملاً ڈھل جانے والے سراپائے خیر مندرجات ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ فلسفہ خیر وشر کی تصدیق کرتے عالمی معاشرے میں ہی پائے جانا والا انسانی رویہ اس کی حقیقت کو مان کر بھی عملاً ماننے سے انکاری اور ’’احترام آدمیت‘‘ کے خلاف شرکا مرتکب ہے، اک مزاحمت مسلسل ہے، جو جاری ہے۔ جب یہ ہو تو خیر مسلسل کیوں نہیں؟ کہ ’’عالمی طاقتوں‘‘ کے خود غرضانہ ’’قومی مفادات‘‘ عالمی معاشرے کی تسلیم شدہ ضرورت ’’احترام آدمیت‘‘ کے مقابل ہیچ ہی نہیں متصادم ہیں۔ کلام الٰہی کے مطابق خالق نے فرمایا:ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔ حدیث نبویؐ ہے کہ ’’مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش ہے‘‘۔ ایک اور حدیث میں مذکور ہے کہ ’’جب انسان کے بال سفید ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود اس کی حیا کرتا ہے۔‘‘ بلاشبہ احترام آدمیت ہر بشر پر لازم ہے۔ خالق کائنات کی ہستی کو ماننے والے تمام ہی مذاہب کے علماء، فلاسفر اور صوفیا کرام کے نزدیک اللہ ہر آدم میں بستا ہے۔

مجھ میں ہے خدا، میرے ارادے میں نہیں ہے

اور ہے تو چلو! آج سے شر چھوڑ دیا جائے

آج انسانیت دشمن دو عالمی جنگوں کے خاتمہ، نوآبادیاتی سامراجی نظام، اقوام متحدہ کے منشور پر عالمی معاشرے کے اتفاق، سرد جنگ اور اس کے خاتمے کے بعد جب عالمی ادارے کا منشور اور امن عالم کے لئے منظور ریکارڈ میں دبی قراردادوں اور شمالی افریقہ کی ’’قابل قبول آمریتوں‘‘ اور فلسطین و کشمیر میں کھلی ریاستی دہشت گردی اور اس کی عالمی طاقتوں کی تائید و خاموشی، شام و عراق کی تباہی اور پاکستان و افغانستان کو اپنے چوکیدارے میں دہشت گردی کے حوالے کرکے ہلاکتوں کے پہاڑ لگانے کا عالمی دھندہ دم توڑ رہا ہے اور :

خود شناسی گوہر آداب شرق

جب مشرق نالۂ احباب شرق

امنِ عالم کے لیے امنِ مشرق لازم ہے اور اس کے لیے تسلیم شدہ عالمی منشور پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔ بالآخر وقت آگیا ہے اور مشرق میں پیدا کئے گئے مصنوعی تنازعات اور غیر منطقی جنگ و جدل کو امن کی عالمی، علاقائی اور دو طرفہ کوششوں سے اس عالمی انسانی ضرورت کا حصول ٹھہر گیا ہے کہ کرہ ارض کے وسائل نام نہاد اور خود تشریح کئے گئے ’’قومی مفادات‘‘ کی بجائے فلاح انسانیت پر خرچ کئے جائیں۔ مشرق جاگ رہا ہے اور امن عالم کی امید کا سورج طلوع پذیر ہے۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں لاہور کے کچھ اہل نظر نے پاکستانی مایہ ناز سفارت کار جناب شمشاد احمد خاں کی امامت میں انتہائی محدود وسائل کے ساتھ ’’لاہور سنٹر فار پیس ریسرچ‘‘ کے قیام کا بیڑہ اٹھایا ہے، جس نے ناقابل تردید حقائق کی بنیاد پر دنیا کو پُرامن دنیا، اس کے آباد خطے کو بے آباد خطوں کی طرح پُرامن اور پرسکون اور جغرافیائی سرحدوں کے احترام اور آزادی و خود مختاری کو یقینی بنانے کے لئے عدم مداخلت اور تعاون برائے امن و امان و استحکام و خوشحالی، امن کا پرچم بلند کیا ہے۔ ’’لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ‘‘ ایل سی پی آر ہر اعتبار سے غیر سرکاری، غیر تجارتی اور کسی بھی ذاتی یا گروہی حوالے سے کسی بھی قسم کے منافع سے مبرا پلیٹ فارم ہے۔ لاہور پاکستان کا علمی و ثقافتی اور تہذیبی مرکز ہی نہیں، نہ فقط برصغیر میں ’’دو قومی نظریے‘‘ کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت کی علامت ’’مینار پاکستان‘‘ کا شہر۔ بلکہ یہ اپنے تاریخی سماجی رویے میں ’’زندہ دلان‘‘ کا شہر ہے۔ شہر اقبال کے شہریوں کی یہ زندگی دلی کیا ہے؟ لاہوریوں کی شہرہ آفاق زندہ دلی بارے خود پاکستانی اپنے اس زاویہ نگاہ کی اصلاح کرلیں کہ لاہوریوں کا یہ سماجی رویہ ان کی اجتماعی فراخ دلی، خوش باشی اور یاروں کی یاری تک محدود یا خوش خوراکی و خوش کلامی ہی تک محدود نہیں، لاہوریوں کو ’’زندہ دلان لاہور‘‘ کا لقب بھی ’’دو قومی نظریے‘‘ کے بانی سرسید احمد خان نے دیا، تب جب وہ مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے چندہ جمع کرنے کی مہم کے دوران یوپی کے نوابوں کی فروغ علم میں کنجوسی دیکھ کر عالم مایوسی میں لاہور پہنچے جہاں نوابوں نے نہیں مسلم اہلالیانِ لاہور، جو ہندو اکثریت کے مقابل اقلیت میں تھے، نے سید صاحب کی توقع سے بڑھ کر مالی اعانت کی، جس پر دیدہ ور چمن نے لاہوریوں کو ’’زندہ دلانِ لاہور‘‘ کہہ کر پکارا اور لاہوریوں کا یہ تاریخی لقب عالمی شہرت تو پا گیا لیکن آنے والے سالوں اور نسلوں میں تشریح سے محروم رہ کر محدود اور ثانوی معنوں کے ساتھ آفاقی بھی ہوگیا۔

ایک علامت یہ ہے کہ آج اقبال کا لاہور عشروں میں بنتے، بڑھتے، پلتے اور مسلط ہوتے اسٹیٹس کو (نظام بد) میں بطور ’’قلعہ‘‘ پھر ’’تخت‘‘ کے طور پر ظالم حکمرانوں کے ہتھے چڑھنے کے بعد بالآخر اپنے علمی تشخص کے ساتھ پھر جاگ گیا۔

لاہور شہر سے ’’لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ‘‘ کے پلیٹ فارم سے اندرونِ ملک دو طرفہ علاقائی اور عالمی سطح پر امن کا جو علم بلند کیا ہے، اس کے دو عملی اقدامات، بغیر میڈیا میں شور مچائے اور پبلسٹی کے حملوں کے، کر لیے گئے ہیں۔ ایک آئی سی جی پی، (انٹرنیشنل کانفرنس گلوبل پیس) ایک تھنک ٹینک GASAM، (مرکز مطالعہ جنوبی ایشیائی امور)کے اشتراک کے ساتھ استنبول میں دو عالمی کانفرنسز کا کامیاب انعقاد کر چکا ہے۔جس میں ترکی، پاکستان اور دیگر ممالک کے اسکالرز اور اراکینِ پارلیمنٹ شریک ہوئے۔ اسی ماہ 22تاریخ کو بھوربن میں جو امن کانفرنس افغانستان میں استحکام کے حوالے سے ہوئی اس سے سینٹر کے نئے امن عمل کا آغاز ’’لاہور پراسیس‘‘ کے نام سے ہوا۔ جو ان شاء اللہ جاری و ساری رہ کر نتیجہ خیز ہوگا جیسا کہ اس کے ابتدائی نتائج نے ثابت کر دکھایا ہے۔