سپریم کورٹ ویڈیو کیس میں زیادہ مداخلت نہیں کرے گی ،علی ظفر

July 17, 2019

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نواز شریف کواب جیل میں رکھنا سب سے بڑی ناانصافی ہے،سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ن لیگ کا نواز شریف کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ ممکن نہیں ہے، یہ سیاسی مطالبہ تو ہوسکتا ہے لیکن قانونی مطالبہ نہیں ہے،سابق وزیر قانون علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ جج ویڈیو کیس میں بہت محتاط نظر آرہی ہے،سابق سربراہ آئی بی ڈاکٹر شعیب سڈل نے کہا کہ جج ویڈیو کے معاملہ میں فارنزک آڈٹ کروانا ضروری ہے۔ ن لیگ کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالتوں پر عوام کا اعتماد اور عدلیہ کی ساکھ بحال کرنے کی ضرورت ہے، نواز شریف کیس میں سپریم کورٹ نے احتساب عدالت پر نگراں جج تعینات کیا تھا اس لئے سپریم کورٹ پر بڑی ذمہ داری ہے، جج ویڈیو کیس کو سیاسی نہیں بنانا چاہتے لیکن احتساب کے عمل پر سوالیہ نشان آگیا ہے، ایک جج پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لیے جاسکتے ہیں تو کسی جج سے بھی فیصلے لیے جاسکتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک کا بیان حلفی خود ان کیخلاف چارج شیٹ ہے، جج ارشد ملک پر دباؤ تھا تو مانیٹرنگ جج یا اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کرنا چاہئے تھا، جج کی باتوں میں حقائق ہیں یا نہیں مگر جیوڈیشل پراسس مشکوک ہوچکا ہے،جج ارشد ملک کے نواز شریف کیخلاف کیس سمیت تمام کیسوں میں فیصلے کالعدم ہوگئے ہیں،ہائیکورٹ نے بھی جج کو ہٹا کر اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ ان کے فیصلوں کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی ہے، نواز شریف کواب جیل میں رکھنا سب سے بڑی ناانصافی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ن لیگ عدالت میں بھی جنگ لڑے گی، اس معاملہ کا ازخود نوٹس لینا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے، عدلیہ کی ساکھ بحال کرنے کیلئے سپریم کورٹ اس پر جلد ایکشن لے، عدالت اس کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو رہا کرے۔سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ن لیگ کا نواز شریف کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ ممکن نہیں ہے، یہ سیاسی مطالبہ تو ہوسکتا ہے لیکن قانونی مطالبہ نہیں ہے، کسی بھی کیس میں سزا یا بریت ازخود نوٹس میں کالعدم قرار نہیں دی جاسکتی ہے، ن لیگ نواز شریف کیخلاف فیصلہ کالعدم کروانا چاہتی ہے تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں پینڈنگ اپیل میں موقف پیش کرے، ن لیگ انتظار کررہی ہے کہ ازخود نوٹس میں انہیں ویڈیو سے کوئی ریلیف مل جائے گا مگر ایسا ممکن نہیں ہے، سپریم کورٹ کو اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے اس کیس میں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔سابق وزیر قانون علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ جج ویڈیو کیس میں بہت محتاط نظر آرہی ہے، سپریم کورٹ اس معاملہ میں زیادہ مداخلت نہیں کرے گا کیونکہ نواز شریف کی اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں پینڈنگ ہے، نواز شریف کی قانونی ٹیم کو ان کی سزا ختم کروانے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ جانا ہوگا، ہائیکورٹ فیصلہ کرے گی کہ ویڈیو اور بیان حلفی کا فیصلے پر کیا اثر ہورہا ہے، اگر کوئی پارٹی ہائیکورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتی تو پھر سپریم کورٹ جاسکتی ہے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے پاس چار آپشنز ہیں، ہائیکورٹ شواہد کی بناء پر دیکھ سکتا ہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ صحیح تھا یا نہیں تھا، ہائیکورٹ بیان حلفی کی بنیاد پر فیصلے کو پہلے سے موجود شواہد پر ریمانڈ بھی کرسکتی ہے، ہائیکورٹ ریمانڈ کے دوران مزید شواہد پیش کرنے کی اجاز ت بھی دے سکتی ہے، ہائیکورٹ کیس کو ریمانڈ کر کے دوبارہ ٹرائل کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ سابق سربراہ آئی بی ڈاکٹر شعیب سڈل نے کہا کہ جج ویڈیو کے معاملہ میں فارنزک آڈٹ کروانا ضروری ہے، اس کے بعد ہی فیصلہ ہوگا کہ ویڈیو اور آڈیو کس حد تک درست ہے، کسی کی ریکارڈنگ کی جائے تو اس کے اپنے فٹ پرنٹ ہوتے ہیں ، ہر آواز کے اپنے فٹ پرنٹ ہوتے ہیں جسے بائیومیٹرک بھی کہہ سکتے ہیں، آڈیو میں آواز کی فریکوئنسی کا جائزہ لینا ہوتا ہے جبکہ ویڈیو میں ہر کلر کی مختلف ویو لینتھ کو جانچنا ہوتا ہے، پاکستان میں آڈیو ویڈیو فارنزک تجزیہ کیلئے لیبس موجود ہیں، پنجاب کی فارنزک سائنس لیب میں اچھے آلات ہیں، ایجنسیوں کے پاس بھی اپنا اپنا ٹیسٹنگ کا سسٹم موجود ہے،بیرون ملک سے بھی فارنزک کروایا جاسکتا ہے، آڈیو ویڈیو فارنزک کیلئے چند گھنٹے بھی کافی ہیں۔ ماہر معیشت محمد سہیل نے کہا کہ پہلی دفعہ مانیٹری پالیسی میں واضح طور پر انٹرسٹ ریٹ اور کرنسی کی قدر کم نہ ہونے کی بات کی گئی ہے، انٹرسٹ ریٹ کے سو بیسز پوائنٹ بڑھنے کی توقع تھی، گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے کچھ مہینوں بعد مہنگائی زیادہ بڑھ سکتی ہے، پاکستان آئی ایم ایف کے ٹارگٹس پورے نہیں کرپاتا ہے تو آئی ایم ایف پروگرام میں خلل آسکتا ہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے، سپریم کورٹ اس معاملہ سے متعلق تین آئینی درخواستوں کا جائزہ لے رہی ہے، چیف جسٹس نے منگل کو اس کیس کا جائزہ لیتے ہوئے بہت سے سوالات بھی اٹھائے اور ریمارکس بھی دیئے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ایک طرف جج کی ویڈیو کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے دوسری طرف ن لیگ سڑکوں پر آنے کی بات کررہی ہے،اہم بات یہ ہے کہ ن لیگ نے ویڈیو کے معاملہ پر ابھی تک کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی عدالت سے رجوع کیا ہے، اس ویڈیو سے متعلق ن لیگ کا موقف اگر درست ہے تو وہ عدالت سے رجوع کیوں نہیں کررہی ہے، منگل کو عدالت میں ویڈیو کی فارنزک ٹیسٹ کی بھی بات ہوئی ہے جو بہت اہم ہے، حکومت اور اپوزیشن ویڈیو کے فارنزک آڈٹ سے متعلق کئی بیانات دے چکی ہے۔