نئے معاشی اقدامات و نظرثانی کے اثرات

July 18, 2019

گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے ایک پریس کانفرنس میں بدھ سے جس نئی مانیٹری پالیسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اس کے تحت شرح سود میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے مجموعی شرح جو جنوری 2018ء میں 6 فیصد تھی بڑھ کر جولائی 2019ء میں 13.25 فیصد ہو گئی ہے اس فیصلے کے یقیناً مثبت اثرات بھی ہوں گے مگر مالی ماہرین کی رائے میں اس سے قرضوں پر چلنے والی صنعتوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہو جائے گا جو مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ گورنر نے اعتراف کیا کہ اس وقت مہنگائی اندازے سے بھی زیادہ ہے مگرمختلف عوامل کی وجہ سے اگلے سال نیچے آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بنک سے بلند حکومتی قرضے روپے کی شرح مبادلہ میں کمی ایندھن کی ملکی قیمتوں میں اضافے اور ضروری اشیاءکے بڑھتے ہوئے نرخوں کے باعث مہنگائی غیر معمولی طور پر بڑھ کر 7.3 فیصد ہو گئی، ابھی اس کے مزید بڑھنے کی توقع ہے اور خدشہ ہے کہ رواں مالی سال میں اضافے کی شرح 12 فیصد تک پہنچ جائے گی ۔آئندہ دو تین مہینوں میں گیس، بجلی اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی ایک مرتبہ پھر اضافے کا امکان ہے تا ہم کچھ عوامل کی وجہ سے افراط زر میں کمی کا امکان بھی ہے جس سے جون 2020ء سے شروع ہونے والے مالی سال میں مہنگائی کی شرح کافی حد تک کم ہو جائے گی اور اگلے سال مہنگائی کی اوسط شرح گیارہ بارہ فیصد رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے اسٹیٹ بنک سے قرض لینے کا سلسلہ ختم کرنے کا عزم کیا ہے جس سے مہنگائی کی صورت حال میں بہتری آئے گی۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ حکومت معاشی بحالی کے لئے مسلسل نئے نئے اور بعض صورتوں میں سخت اقدامات کر رہی ہے لیکن جہاں ضرورت ہو ان پر نظرثانی بھی کرتی ہے تا کہ عوام اور کاروباری طبقوں کے تحفظات دور کئے جا سکیں۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے منگل کو خوردنی تیل پر ٹیکس 7فیصد سے کم کر کے 2 فیصد کر دیا ہے ۔وزیراعظم نے تاجروں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ حکومت کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور سرمایہ کاروں کی سہولت کے لئے مسلسل کوشاں ہے ۔انہوں نے گھی اور آٹے سمیت ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی چیف سیکریٹریوں سے وضاحت طلب کر لی ہے ۔ادھر ایف بی آر کے چیئرمین سے فلور ملز ایسوسی ایشن کے مذاکرات کامیاب ہو گئے جس کے نتیجے میں ایسوسی ایشن نے آٹے، سوجی میدے چوکر اور دیگر مصنوعات پر ٹیکس نہ لگانے کی یقین دہانی کے بعد ہڑتال کی کال واپس لے لی ہے ۔تاجروں کی رجسٹریشن کا فیصلہ واپس نہیں لیا جائے گا جو دستاویزی معیشت اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حکومتی عزم کا مظہر ہے۔ ٹرانسپورٹروں کے ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 سے کم کر کے 2فیصد کر دی گئی ہے۔ ایف بی آر نے تاجروں کو ہراساں کرنے سے روکنے کے لئے اہلکاروں کو چھاپے نہ مارنے کی ہدایت کر دی ہے اس کے علاوہ تاجروں کے تحفظات دور کرنے کے لئے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔تمام جیولرز ایسوسی ایشنوں اور پاکستان ٹریڈ الائنس کے نمائندوں کے ساتھ رواں ہفتے مشاورت کر کے ٹیکس وصولی کے حوالے سے نئی پالیسی مرتب کی جائے گی۔لاہور اور فیصل آباد کے تاجروں کی نمائندہ تنظیموں کی بھی ایف بی آر کے چیئرمین سے اسی ہفتے ملاقات متوقع ہے جس میں ان تنظیموں کی تجاویز پر گفت و شنید ہو گی۔ یہ حکومت اور تاجروں کے درمیان اعتماد کی بحالی کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہے ۔کھاد فیکٹریوں سے حکومت کے مذاکرات کا فی الحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا جس کے لئے مزید کوششیں کرنی چاہئیں ۔توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت کے نئے معاشی اقدامات کی خوبیوں اور خامیوں کا مسلسل جائزہ لینے کے بعد ان پر نظرثانی اور اصلاحات کا عمل سیاسی مصلحتوں سے قطع نظر قومی معیشت کے مفاد میں جاری رہے گا۔