عظمت صحابہؓ … قرآن و حدیث کی روشنی میں

July 21, 2019

تحریر:ضیاء المحسن طیب…برمنگھم
صحابہؓ صحابی کی جمع ہے، جس کے معنی ’’ساتھی‘‘ اور ’’دوست‘‘ کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت یا صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہوا ہو۔ پوری امت مسلمہ کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا ولی، قطب، ابدال بھی ایک ادنیٰ صحابی کے مقام اور مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ صحبت رسولﷺ کا شرف جو اسے حاصل ہوا ہے اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ مجدد الف ثانی مکتوبات میں فرماتے ہیں۔ ’’صحبت نبویﷺ کی فضیلت تمام دوسرے فضائل و کمالات سے اعلیٰ و بالا ہے اور اسی واسطے وہ اویس قرنی جو بلاشبہ تابعین میں افضل ترین ہیں، کسی ادنیٰ صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ آپ مزید فرماتے ہیں صحابہؓ کرام کا ایمان شرف صحبت و دیدار نبی و وحی ملائک اور معجزات و خوارق کے مشاہدہ کی وجہ سے شہودی ہوچکا ہے۔ بعد والوں نے جسے صرف سنا اس کو صحابہ کرامؓ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘صحابہ کرامؓ کے ایمان اور ان کے جنتی ہونے کی گواہی خود قرآن کریم نے دی ہے۔ سورہ توبہ میں ہے ’’اور مہاجرین و انصار جن لوگوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان قبول کرنے میں سبقت کی اور وہ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ مہاجرین اور انصار کا اتباع کیا اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے اور خدا تعالیٰ نے ان کیلئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ تمام صحابہ کرام جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا، ان تمام کے لئے جنت کی بشارت ہے۔ سورہ فتح میں ارشاد ہے ’’یقیناً اللہ راضی ہوگیا مومنوں سے جب وہ آپؐ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔‘‘ امام بغدی نے اپنی تفسیر معالم التنزیل میں حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا، ان لوگوں میں سے ایک بھی دوزخ میں نہیں جائے گا جنہوں نے آپؐ سے درخت کے نیچے بیعت کی ہے۔‘‘ اس بیعت رضوان میں کم و بیش چودہ صحابہ شامل تھے جن میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ شامل ہیں۔ ضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اپنے صحابہ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میرے صحابہ کے بارے اللہ سے ڈرتے رہنا، میرے بعد ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا، آپ نے فرمایا، جس نے ان سے محبت کی، اس نے میرے ساتھ محبت کی اور جس نے ان کے ساتھ دشمنی کی، اس نے میرے ساتھ دشمنی کی، جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی اورقریب ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو پکڑ لے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جو شخص صحابہ کرام سے حسد کرتا ہے ان سے جلتا ہے، ان کے متعلق بدگمانی کرتا ہے وہ کافروں میں شامل ہوجاتا ہے، کوئی سچا مسلمان صحابہ کے متعلق بدگمانی نہیں کرسکتا اور نہ ہی انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بناسکتا ہے۔ صحابہ کرام کی جماعت وہ جماعت ہے جس کے بارے اللہ کے نبی کو ارشاد ہوتا ہے کہ آپﷺ ان سے مشورہ کیا کریں، بعض سیاسی یا انتظامی امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح حکم نہیں آتا، بلکہ اسے اہل ایمان کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے، ایسے ہی معاملات میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کو حکم دیتا ہے کہ آپؐ ایسے معاملات میں ان سے مشورہ کرلیا کریں۔ مثال کے طور پر جب جنگ کا معاملہ درپیش ہوا تو آپﷺ نے صحابہ سے پوچھا کہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے یا باہر نکل کر لڑی جائے تو اس طرح کے معاملات میں آپﷺ کو صحابہ سے مشورہ کا حکم دیا گیا ہے۔قریش کے بعض سرداروں نے جب آپؐ سے یہ کہا کہ آپ ان غربا کو اپنے پاس سے اٹھا دیں تاکہ دولت مند سردار آپ کے پاس بیٹھ سکیں، جب آپ ؐکے دل میں خیال آیا کہ ان غربا کو تھوڑی دیر علیحدہ کردینے میں کیا حرج ہے یہ تو پکے مسلمان ہیں، ان بات پر رنجیدہ نہ ہوں گے اور یہ دولت مند اسی صورت میں اسلام قبول کرلیں گے، اس پر خدا تعالیٰ نے ناراضگی کا حکم نازل فرمایا کہ آپﷺ روکے رکھیں ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح و شام طالب ہیں ان کے چہرے اور نہ ڈریں تیری آنکھیں ان کو چھوڑ کر تلاشی میں رونق زندگانی دنیا کی۔یعنی خدا تعالیٰ کو یہ کسی طرح بھی پسند نہیں کہ غریب اور مسکین صحابہ کو اٹھاکر امیروں اور سرداروں کو بٹھایا جائے آپﷺ نے فرمایا، میرے تمام صحابہ عادل ہیں۔ میرے تمام صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم جس کی بھی پیروی اور اتباع کروگے نجات پائوگے، ہدایت پائوگے۔‘‘ صحابہ کرام وحی رسالت کے براہ راست گواہ ہیں، حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں، صحابہ کرام پر تنقید بالواسطہ قرآن اور شریعت پر اعتراض ہے، کیونکہ صحابہ کرام وحی رسالت اور دین کے گواہ ہیں قرآن کریم حضرت عثمان غنیؓ نے جمع کیا، اگر حضرت عثمان قابل اعتراض ٹھہریں تو قرآن کو بھی غلط کہنا پڑے گا جہاں تک صحابہ کرام کے آپس کے اختلافات کا تعلق ہے تو وہ خواہش نفسانی کے باعث ہرگز نہ تھے، کیونکہ آپﷺ نے صحابہ کرام کا مکمل تزکیہ کردیا تھا۔ صحابہ کرام میں افضل حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں، امام شافعی فرماتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام بشمول حضرت علیؓ اس بات پر متفق تھے کہ حضرت ابوبکرؓ افضل ترین شخصیت ہیں۔صحابہ کرام کے بارے عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ تمام کے تمام صحابہ عادل ہیں، جنتی ہیں، حق پر ہیں، ایمان دار ہیں، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں۔