’’عبداللہ III‘‘ (تیسری قسط)

July 28, 2019

وہ بہت نازک، معصوم ہے، زمانے کے تھپیڑے نہیں کھاسکتی
یہ محبّت کرنے والوں کی سب عادات ایک سی کیوں ہوتی ہیں
اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

کچھ دیر ماحول پر گمبھیر سی خاموشی طاری رہی۔ کبھی کبھی سارے لفظ ہمارے اندر موجود ہوتے ہوئے بھی ترتیب پانے میں بہت وقت لے لیتے ہیں۔ ویسے بھی کہتے ہیں غم، دُکھ یا نقصان کی خبربہت ناپ تول کر سُنانی چاہیے۔ سو، وہ بھی بہت دیر، چُپ نظریں جھکائے کھڑےلفظ ناپتے تولتے رہے اور مَیں سُکون سے کھڑا زہرا کے ابّا کے بولنے کا انتظار کرتا رہا۔ اُنہیں بات کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ تیسری بار پوچھ بیٹھے، ’’اور میاں! کیسے ہو…؟‘‘ میرا دل چاہا، کہوں ’’کئی سال سے قید ہوں، بے بس، بے چین ہوں، بہت اذیت میں ہوں۔‘‘ لیکن زبان سے وہی پُرانا جھوٹ نکلا، ’’ٹھیک ہوں۔ آپ فرمائیں کیسےآنا ہوا، وہ تو ٹھیک ہےناں؟‘‘ جانے کیوں، مگر میں اُن کے سامنے زہرا کا نام نہیں لے پاتا تھا۔ شاید ہر ادب کے کچھ الگ تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ کچھ دیر چُپ رہے۔ ’’تم جانتے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن ایک جوان بیٹی کےباپ کو ہزار اطراف دیکھنا ہوتا ہے۔ مَیں کہنا نہیں چاہتا، مگر اُس کانام بہت رسوا ہو رہا ہے، تمہارے نام کے ساتھ۔‘‘ میں نے تڑپ کر اُن کی طرف دیکھا۔ بس یہی کسر باقی رہ گئی تھی۔ وہ میری کیفیت سمجھ گئے۔ ’’میں جانتا ہوں تم بے قصور ہو، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمہیں عُمرقید ہوئی ہے۔ جانے یہاں سے باہر آتے تمہیں مزید کتنے سال لگ جائیں۔ تمہارے پاپا اپنی سی ہر ممکن کوشش کرچُکے، لیکن تمہارے تینوں حریف بہت زورآور، مال دار ہیں اور پتا نہیں یہ خبر تم تک پہنچی ہے یا نہیں کہ تمہارے والد اپنی ساری جائیداد، فیکٹریاں گرِوی رکھ چُکے ہیں۔ اِن چھے سات سالوں میں تمہارا کیس لڑنے اور تمہیں باہر لانے کی تگ و دو میں وہ اپنا سب کچھ لُٹا بیٹھے ہیں۔‘‘ مَیں چُپ رہا، میں پاپا کے حالات سے اچھی طرح واقف تھا، لیکن جانے آج وہ اتنی لمبی تمہید کیوں باندھ رہے تھے، جو کہنے آئے تھے، کہہ کیوں نہیں رہے تھے۔ کچھ دیر کے لیے خاموشی کا ایک اور وقفہ آیا، پھر بولے، ’’مَیں جانتا ہوں تمہیں میری بات سُن کر بہت دُکھ ہوگا۔ تم اُسے بہت چاہتے ہو۔ اُس کی اچھی زندگی، بہتری کےلیے کچھ بھی کرسکتے ہو اور وہ بھی تمہارے انتظار میں ساری عُمر گھربیٹھ سکتی ہے، لیکن… لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ اب وہ اپنی نئی زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کردے۔ آخر ہم کب تک اُس کےساتھ رہیں گے۔ اکیلی لڑکی کے لیے یہ معاشرہ کسی جہنم سے کم نہیں اور میرے اور اُس کی ماں کے پاس کتنا وقت رہ گیا ہے، ہم نہیں جانتے…‘‘ وہ بولتے بولتے پھر چُپ ہوگئے۔ کیا ستم تھا، وہ میری موت کی تصدیق بھی خود مجھ ہی سے کروانا چاہتے تھے۔ میرے لب ہلے، ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں اُسے کبھی بھی زمانے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہتا۔ وہ بہت معصوم، بڑی نازک ہے، زمانے کے تھپیڑے نہیں جھیل سکتی۔‘‘ مَیں نے جیسے اُن کے دل کی بات کہہ دی تھی، فوراً بولے، ’’یہی تو مَیں کہہ رہا ہوں تمہارے باہر آنے کی کوئی ضمانت نہیں۔ دشمن تمہیں پھانسی کےپھندے تک پہنچانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ وقت اُن کا ہے۔ دولت، اختیار، طاقت اُن کے پاس ہے، ہر چیز تمہارے مخالف ہے۔ تم اندازہ لگاسکتے ہو، ایسے میں ایک باپ اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے کس قدر پریشان ہوسکتا ہے؟‘‘ مَیں نے اُن کی جُھکتی نظر سے نظر ملانے کی کوشش کی۔ ’’جی… میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘، ’’اِسی لیے مَیں آج یہاں تم سے یہ کہنے آیا ہوں کہ تم اپنی محبت کا واسطہ دےکراُسےنئی زندگی کی شروعات پر مجبور کرو، وہ تمہاری بات نہیں ٹالتی۔ شروع میں تم دونوں کو بہت تکلیف ہوگی، لیکن دھیرے دھیرے قرار آہی جائے گا۔ آخر لوگ مر بھی تو جاتے ہیں اس دنیا میں…‘‘ وہ بولتے بولتے چُپ ہوگئے۔ کبھی کبھی تیر انداز کو پتا نہیں چلتا کہ کب اُس کے ترکش کے سارے تیر ختم ہوچُکے، لیکن وہ لگاتار ایک ہی نشانے پر تاک تاک کر تیر چلائے جاتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ اس کا تو پہلا چلایا ہوا تیر ہی اُس کے شکار کے لیےجان لیوا ثابت ہوچکا۔ زہرا کے ابّا نے بھی اپنی کمان خالی کرکے ہی دَم لیا۔ ’’آپ جانتے ہیں ایسےحالات اورمواقع پہلے بھی کئی بار پیدا ہوچکے، لیکن وہ ہر بار ثابت قدم ہی رہی، پھر آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ اس بار وہ میری بات مان لے گی؟‘‘، ’’پہلے کی بات اور تھی، تب جیسا بھی تھا کبھی ہماری آس نہیں ٹوٹی۔ ہر پل ایسا ہی لگتا تھاکہ تم لوٹ آئو گے اورتب سلطان بابا کی دُعائیں، اُن کے وجود کا سایہ بھی تو تم پر گھنی چھائوں کیے رکھتا تھا، لیکن اب تو وہ بھی نہیں رہے۔‘‘ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ میری ہر اُمید، ہر آس سلطان بابا کے ساتھ ہی تو بندھی تھی، جب انہوں نے ہی میرا ساتھ چھوڑ دیا، تو پھر کسی اور سے شکوہ کیسا۔

’’آپ بےفکر رہیں، اب اگر وہ مجھ سے ملنے آئے گی، تو مَیں پوری کوشش کروں گا کہ وہ آپ کی بات مان لے۔‘‘ وہ جاتےجاتے ایک لمحے کو رُکے، آنکھیں بھیگنے کو تھیں شاید ’’جیتے رہو…‘‘ وہ دُعا دے کر تیزی سے پلٹے اور تیز تیز قدم اٹھاتے کمرے سے نکل گئے۔ مَیں جالی اور سلاخوں کی دیوار پرے کھڑا رہ گیا۔ کتنی عجیب دُعا تھی یہ ’’جیتے رہو…‘‘ جیسے کوئی قاتل، مقتول کےسینے میں خنجر اُتارنے کے بعد اُسےتڑپتا چھوڑ کر اپنےخنجر کی دھار سےخون صاف کرتے ہوئے کہتا جائے۔ ’’جیتے رہو…‘‘ مَیں ٹوٹے قدموں، ہارے دل کے ساتھ اپنی بیرک میں واپس آیا، تو پانچ چھےقیدی ایک نئےقیدی کوگھیرے بیٹھے تھے۔ عجیب و غریب ساحلیہ تھااس کا، لمبی جٹا دھاری زلفیں، بکھری لَٹیں، بازو پرگیروا رنگ کا دھاگا، جس میں کئی تعویذ بندھےتھے۔گلےمیں مالا،داڑھی مونچھیں بے تحاشا بڑھی ہوئیں، پیچھے بالوں کی پونی بنائے۔ وہ قیدی کی وردی میں کوئی سادھو دکھائی دے رہا تھا۔ قیدی لطف لینےکےلیےاس سے مختلف سوال کررہے تھے اور وہ بھی بے فکرا سا آنکھیں بند کیے چوکڑی مارے ایک خاص آسن میں بیٹھا سب کی اُلٹی سیدھی باتوں کا جواب دے رہا تھا۔ میں چُپ چاپ دوسری جانب کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ نئے قیدی نے ایک آنکھ کھول کر میری طرف دیکھا اور دیگر قیدیوں سے میرے بارے میں پوچھا۔ اُسے بتایا گیا کہ میرا نام ’’عبداللہ‘‘ ہے اور میں قتل کے جرم میں یہاں عُمرقید کاٹ رہا ہوں۔ سادھو نے حیرت سے میری طرف دیکھا ’’کمال ہے یہ کسی کی جان کیسے لے سکتا ہے…؟‘‘وہ سب دوبارہ اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے اور رات ڈھلتی گئی۔ جیل میں انسان کے پاس وہ دولت سب سے زیادہ ہوتی ہے، جو باہر کے آزاد لوگوں کے لیے ناپید ہوتی جا رہی ہے، ’’وقت‘‘۔ لیکن یہ دولت قیدی کے لیے کتنا بڑا عذاب بن جاتی ہے، یہ کوئی آزاد نہیں جان سکتا۔ سو، وہ سارے مل کر اس وقت کے سنہری سکّے کو باتوں کی آری سے رات بھر کاٹتے رہے۔ صبح ہونے تک نیا قیدی ساری جیل میں مشہور ہوچکا تھا۔ ویسے بھی کچھ لوگ اس فن میں یکتا ہوتے ہیں، فوراً لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتے ہیں۔ اس کا نام اسلم تھا، لیکن وہ خود کو ’’یوگی‘‘ کہلوانا پسند کرتا تھا اور یوگا کے کسی آسن میں کھڑے، بیٹھے یا لیٹے رہنا اس کا شیوہ تھا۔ صبح سویرے قیدی اُسے دیوار کے ساتھ سر کے بل کھڑے دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگے، مگر اسلم یوگی پر اُن کی ہنسی کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس نے اطمینان سےساری مشقیں پوری کیں اور پھر میرے سامنے آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا۔ ’’بولتے نہیں ہو؟‘‘، ’’کیا بولوں…؟‘‘ ،’’کچھ بھی…بولتے رہا کرو، ورنہ دھار تیز ہوتی رہے گی مَن کی۔ تمہارا اندر بہت کاٹ دار ہو جائے گا، وقت کے ساتھ۔‘‘ میں چُپ چاپ اس کی مالائیں اور تعویذ دیکھتا رہا۔ وہ مجھے متوجّہ دیکھ کرجلدی سے بولا ’’جیل کے بڑے صاحب سے خصوصی اجازت لی ہے پہننے کی۔ اِن کے بغیر میرا گزارہ نہیں۔ اسلم یوگی نام ہے میرا…‘‘ یوگی نے ہاتھ بڑھایا۔ ’’مجھے عبداللہ کہتے ہیں۔ اصل نام کچھ اور تھا کبھی۔‘‘ وہ مُسکرایا، ’’نام سے فرق نہیں پڑتا۔ مجھے بھی لوگ اب یوگی کہتے ہیں۔ ماں باپ نے کچھ اور نام رکھا تھا۔ ویسے میرا اپنا ماننا یہ ہے کہ ہمیں زندگی میں ایک بار ہوش سنبھالنے کے بعد اپنا نام اپنی مرضی سے رکھنے یا بدلنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تمام عُمر ہم ماں باپ کے دیئے نام کے ساتھ ہی کاٹ دیتے ہیں۔ چاہے وہ نام ہم پر سجتا بھی ہو یا نہیں،یا پھر ہمارے دو نام ہونے چاہئیں۔ ایک وہ جو ماں باپ نے پیار میں رکھا۔ اوردوسرا وہ جو ہم اپنے لیے پسند کریں۔

مَیں نے سُنا ہے تمہیں قتل کے جرم میں عُمرقید ہوئی ہے‘‘ ،’’ٹھیک سُنا ہے۔ گولی بھی چلی تھی اور قتل بھی ہوا تھا۔‘‘ یوگی نے ایک گہری سانس لی۔ ’’مجھے پتا تھا، تم دلیل اور بہانے سے کام نہیں لوگے۔ میرا جرم بھی کچھ ایسا ہی ہے۔‘‘ یوگی نے بتایاکہ وہ بچپن سےطب وحکمت سیکھنےکا شوقین تھا۔ گھر اور شہر سے زیادہ اس کا دل ویرانوں، بیابانوں،جنگلوں میں لگتا تھا۔ اسکول سے بھاگ کر وہ کسی قریبی حکیم کے مطب جا پہنچتا اور پھر وہ اور بوڑھا حکیم دن بھرجنگلوں میں جڑی بوٹیاں اور نایاب جھاڑیاں چھانتے پھرتے تاکہ اُن سے دوائیں بنائی جائیں۔ وہیں اُس کی ملاقات کسی سادھوسےہوگئی، جس نے یوگی کو یوگاکی مشقیں سِکھا کر ریاضت کے سبق ازبرکروا دیئے۔ اب حکیم بوٹیاں ڈھونڈتا اور یوگی کسی درخت سے لٹکے یوگا کرتا رہتا۔ ماں باپ نے بے زار ہو کر اُسے حکیم ہی کے سپرد کردیا اور چند سالوں میں یوگی خود بھی ایک مستند حکیم بن گیا، مگر اس کے پاس کوئی سند نہیں تھی۔ لوگ اس کےعلاج سے شفایاب ہونے لگے تورش بڑھتا گیا۔ انسان بڑی مجبور مخلوق ہے، ازل سے ابد تک اسے مسیحائی ہی کی تلاش رہتی ہے،پھر چاہے جہاں سے بھی ملے، مگر یوگی کے ستاروں نےگردش میں آنا تھا۔ ایک روز کسی سفوف کی پڑیا بناتےاُس سے کچھ اُنیس بیس ہوگیا، مریض کا درد تو نیچے نہ گیا، مریض اوپر چلا گیا۔ مریض کے رشتے دار عدالت چلے گئے اور یوگی کو سات سال کے لیے اندر کردیا گیا۔ یوگی کی قید کا یہ چھٹا سال تھا۔ اس سے پہلے وہ اپنے ہی ضلعے کی چھوٹی جیل میں قید تھا۔ پھر شاید جگہ کی کمی کی وجہ سے کچھ پرانے قیدیوں کو بڑی جیل بھیج دیا گیا،جن میں اسلم یوگی بھی شامل تھا۔ بیرک میں یوگی کےآجانے سے ایک رونق سی ہوگئی تھی۔ جلد ہی وہ سب کا دوست بن گیا۔ سوائے میرے، شاید مجھے دشمن زیادہ بھاتے تھے۔ لیکن یوگی نےاس بات کا کبھی بُرا نہیں منایا۔ وہ ہمیشہ مسکرا کر ہی ملتا۔ وہ دن بھر بیرک اور جیل کے دیگر قیدیوں کو مختلف طبّی ٹوٹکے بتاتا رہتا۔ اب تو جیل کے سنتری اور چھوٹا عملہ بھی اس سے مشورے لینےلگا تھا۔ اگلے روز وہ میرے سامنے آکے آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا۔ ’’کب سے ہو اس چھوٹی جیل میں…؟‘‘ مَیں نے سر اٹھاکردیکھا۔ ہمیں کچھ دیر اپنے اپنے حصّے کی دھوپ کھانے کے لیے بیرک سےجیل کےصحن میں لایا گیا تھا۔ جیل میں دھوپ بڑی منہگی ملتی ہے۔ یہ بھی میں نے یہیں آکر جانا تھا۔میں نےیوگی کی طرف دیکھا۔’’چھوٹی جیل؟‘‘ ، ’’ہاں، باہر شہر کی دنیا ایک بڑی جیل ہے۔ وہاں بھی کچھ اپنے بس میں نہیں۔ پابندیاں، قانون، سختیاں، ڈراوے… فرق بس یہ ہے کہ ہمیں اِس بڑی جیل سے دھکیل کر اُس چھوٹی جیل میں بند کردیا گیا ہے۔ نہ وہاں اپنی مرضی چلتی تھی، نہ یہاں ہمیں کوئی اختیار ہےبلکہ میں تو کہتا ہوں یہ چھوٹی جیل بڑے مزے کی جگہ ہے، باہر تو روزگار کے جھگڑے، معاش کی فکریں، دربدر کے دھکے… عہدے، رُتبے اور حاکم محکوم کا فرق، جب کہ یہاں اندر خود وہی حاکم اور سرکار ہمارے قیام طعام کا انتظام کرتی پھرتی ہے، سب ایک برابر۔ سب کا ایک عہدہ یعنی سب قیدی۔‘‘ مَیں نےمُسکراکراس کی طرف دیکھا۔ ’’پھر لوگ اس جیل اور قید سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟‘‘ یوگی بولا ’’اُمراء اور شہزادوں کی حد تک تو بات سمجھ آتی ہے، کیوں کہ انہیں یہ سختیاں جھیلنے کی عادت نہیں ہوتی مگر مجھ جیسے فٹ پاتھیے اور مزدور بندے کی تو ساری زندگی اس سینٹرل جیل سے بھی کسی چھوٹے مدار میں گزر جاتی ہے۔ گھر سے دفتر، دکان، ورکشاپ، ٹھیلا یا کوئی اور کام کی جگہ۔ صبح سے شام یا رات تک کسی کولھو کے بیل کی طرح روزگار کی فکر میں جُتے رہنا اور رات گئے واپس جھونپڑے کو لوٹ جانا۔ ساری حیاتی یونہی بیت جاتی ہے۔ چند کلو میٹر کے دائرے میں، تو پھر یہ جگہ بہتر نہیں، کم ازکم کوئی ذمّے داری تو نہیں ہے سر پر… بیرک کی کھڑکی سے خزاں، بہار، جاڑا اور بارش کی بوندیں تو دکھائی دیتی ہیں۔ دُنیا کا کوئی الزام طعنہ بھی سننے کو نہیں ملتا۔ کوئی امیری غریبی کا جھنجھٹ نہ خزانے بھرنے کی دوڑ۔‘‘ مَیں غور سے یوگی کا فلسفہ سُنتا رہا، وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ جیل، قید، قفس یا پنجرہ، سب اختیار ختم کرنے کی علامات ہیں، لیکن جنہیں باہر کوئی اختیار نہ اندر کوئی حق حاصل، انہیں بھلا کیا فرق پڑتا ہوگا۔ میں بھی تو ان ہی بے اختیار لاچاروں میں سے ایک تھا۔ زہرا کے ابّا کے مجھ سے مل کر جانے کے بعد وہ بہت دن تک مجھ سے ملنے نہیں آئی۔ اُسے اب یہاں لانے والا کوئی تھا بھی تو نہیں، باپ نے ضرور گھر جاکر اُس سے بھی وہی بات کی ہوگی، جو وہ مجھے کہنے آئے تھے۔ وہ بہت روئی تڑپی ہوگی۔ کھاناپیناچھوڑ دیا ہوگا، خود کو کمرے میں بند کرکے بیٹھ گئی ہوگی۔ آنکھیں جاگ کر، رو رو کر سُجالی ہوں گی… یہ محبت کرنےوالوں کی سبھی عادات ایک سی کیوں ہوتی ہیں۔ شاید ازل سے ابد تک محبت کی بنیادی درس گاہ ایک ہی رہی ہے، تب ہی ’’عشق مدرسے‘‘ سےسارےطالب علم یکساں نکلتے ہیں یا شاید اس عشق اور پیار محبت کا سارا خمیر ایک ہی مٹّی سے گوندھا گیا ہے۔

اگلے روز جیل کے قاصد سنتری نےپھرخبردی۔ ’’چلو، تمہاری ملاقات آئی ہے۔‘‘ مَیں جانتا تھا یہ آخری ملاقات طے تھی۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ زنداں کی جالیوں کے پاس پہنچا۔ وہی مخصوص خوشبو، وہی مہکتا سایہ، وہی ہالۂ نور اور وہی دو جان لیوا آنکھیں۔ کپکپاتے لب ہلے،’’کیسے ہو صاحب…؟‘‘، ’’تمہیں دیکھا ہے، تو اب ہوں۔ جانے ٹھیک ہوں یا خراب…؟ تم سے پہلے تو ہونے نہ ہونے کا احساس ہی نہیں تھا۔ اب خود سے پوچھ کر بتائوں گا کہ کیسا ہوں…؟‘‘ اُس نے تڑپ کر میری طرف دیکھا ’’بہت ستاتے ہو…‘‘ کچھ دیرہم دونوں ایک دوسرے سے بِنا لفظوں کے بات کرتے رہے، پھر اس نے دھیرے سے پوچھا ’’ابّا آئے تھے یہاں؟‘‘ ،’’ہاں، حُکم سُنا گئے ہیں کہ عشق کی حد سے باز رہوں اور تمہیں بھی دیس نکالا دے دوں۔‘‘ زہرا رو پڑی۔ ’’پتا نہیں اُنہیں کیا ہوگیا ہے، پہلے تو ان کا دل اتنا سخت نہیں تھا کبھی۔‘‘، ’’ان کا دل سخت نہیں ہے، تب ہی وہ تم سے یہ سب کہہ رہے ہیں صاحبہ۔ محبت کا امتحان ہے، پورا تو اُترنا ہوگا۔‘‘ اُس نے سر اٹھا کر میری طرف بے یقینی سے دیکھا، ’’تم بھی یہی کہہ رہے ہو، میں کب آتی ہوں بھلا تم سے ملنے، صرف مہینے بھر میں ایک یا دو مرتبہ۔ اُس سے بھی یہ سب لوگ روک رہےہیں مجھے؟‘‘میں نےاس کا معصومانہ سوال سُنا۔ ’’وہ مجھ سے ملنے سے نہیں روک رہے۔ مجھے بھول کر ایک نئی زندگی شروع کرنے کا کہہ رہے ہیں تمہیں۔‘‘اُس نےغصّے سےمیری طرف دیکھا، ’’جب زندگی ملتی ہی ایک بار ہے، تو پھر اُسےنیا آغازکیسےدیاجاسکتاہےصاحب۔جیون ہے، کوئی مشین تو نہیں کہ ایک پُرزہ خراب ہوجائے، تو دوسرے سے بدل لیا جائے؟‘‘ مَیں جانتا تھا کہ اسے میری کوئی دلیل، وجہ یا عرض گزاشت سُننے کی حد تک بھی متاثر نہیں کرپائے گی۔ آخر مجھے وہی کلیہ، آزمانا پڑا جو محبت کرنے والے آخری حربے کے طور بچا رکھتے ہیں۔ ہمارے درمیان لوہے کی مضبوط جالی حائل تھی۔ مَیں نے اس آہنی پردے پر اپنا ہاتھ رکھا اور اُسے اپنے ہاتھ کے اوپر ہاتھ رکھنے کو کہا۔ اُس کی طرف بھی ویسی ہی ایک جالی تھی، یعنی ہم دونوں کے ہاتھوں کے درمیان پھر بھی فٹ بھر کا فاصلہ تھا، لیکن اس کی انگلیوں کی پوریں چُھونے میں یہ اتنا سا فاصلہ بھلا کب حائل تھا؟ میں اُسے ہزاروں میل کےفاصلے سے بھی چُھو سکتا تھا۔وہ میرےہاتھ کےمقابل ہاتھ رکھےمجھےدیکھتی رہی۔ ’’کسی بڑے امتحان میں مت ڈالنا، اب مجھ میں زیادہ سکت باقی نہیں۔‘‘ اس کاوجود باقاعدہ لرز رہا تھا۔ شاید وہ جان گئی تھی کہ میں اس سے کیا کہنے والا تھا۔ ’’تمہیں تمہارے عبداللہ کی قسم، جو گھر والے کہتے ہیں،مان لو۔ میں نے ہمیشہ اپنوں کو دُکھ ہی دیئے،میرے ماں باپ بھی سدا میری وجہ سے پریشان ہی رہے، تمہارے اپنوں کو بھی وہ دُکھ دوں، یہ مجھے گوارا نہیں۔‘‘اُس نے تڑپ کر نظر اٹھائی ’’اورمیں صاحب… مجھے دُکھ دے سکتے ہو؟ یہ گوارا ہے تمہیں۔ اتنی بڑی قسم کیوں دے ڈالی مجھے۔ جانتے بھی ہو، یہ ناممکن ہے۔‘‘ میں تمہارے ابّا سےوعدہ کرچکا ہوں۔ میرا حال ناشاد، مستقبل بربادہے۔ کس آسرے پرتمہیں گھر بٹھائے رکھوں۔ اور پھر جسم کی دُوری بھی بھلا کوئی دُوری ہے، تم کہیں بھی رہو، میرے پاس رہوگی۔ نبھالینے دو زمانے کو اپنی یہ چند رسمیں۔ اگر اس میں تمہارے اپنوں کو خوشی ملتی ہے تو یوں ہی سہی۔‘‘ زہرا چُپ چاپ کھڑی سُنتی رہی اورآنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے گئے۔ جدائی کتنی اذیت ناک چیز ہوتی ہے، ملنے والے یہ کبھی جان نہیں پاتے۔ جان لیتے تو سجدوں ہی میں جان دے دیتے۔ شُکرانے کے سجدے، جیون بھر کے نذرانوں کے سجدے، لیکن ہمارے نصیب میں تو مقدر ہر بار فراق ہی لکھتا آیا تھا۔ سو، وہ لمحۂ فراق پھر سر پہ آپہنچا تھا۔ وہ چُپ چاپ پلٹی اور جاتےجاتے ذرا دیر رُک کر بولی، ’’آج تک تمہارا کوئی حکم نہیں ٹالا، لہٰذا تعمیل کی کوشش کروں گی، اگر سانس چلتی رہی تو…‘‘ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ جی چاہا اس کے کومل قدموں کی چاپ ختم ہونے سے پہلے میں خود ہی ختم ہوجائوں، مگر عشق والوں کے امتحان اتنے آسان نہیں ہوا کرتے۔ زہرا چلی گئی اور میں پھر بھی سانس لیتا رہا۔

مَیں واپس بیرک پہنچا، تو یوگی کو میرے چہرے پر چھائی موت نظر آگئی۔ ’’کیا ہوا تمہیں، لگتا ہے کوئی بہت بُری خبر سُن کر آئے ہو؟‘‘مَیں چُپ چاپ بیٹھارہا۔ یوگی نے آس پاس دیکھا اور رازداری سے بولا، ’’اچھا سنو، تمہیں ایک خوشی کی خبردیتا ہوں۔ تم جانتے ہو مَیں نے ڈسٹرکٹ جیل سےاس بڑی جیل تک آنےکے لیے کتنی رشوتیں دی ہیں اور یہ تگ و دو بھلا کیوں کی ہے؟‘‘ مَیں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ یوگی نےسرگوشی کی ’’کیوں کہ یہ جیل بہت جلد ٹوٹنے والی ہے۔ مَیں یہاں سے سزائے موت کا ایک قیدی بھگانےآیا ہوں۔ اور تم جانتے ہو وہ قیدی کون ہے…؟‘‘ میری نظر یوگی کے چہرے پر گڑ کر رہ گئی۔ (جاری ہے)