بورس جانسن؟

July 24, 2019

خیال تازہ … شہزادعلی
منگل 23جولائی دن کے بارہ بجے ہیں۔ لاکھوں برطانوی ناظرین کی نگاہیں ٹی وی سکرینوں پر جمی ہوئی ہیں کہ آج حکمران پارٹی کے نئے لیڈر کا اعلان ہونا ہے کئی مراحل کے بعد برطانیہ کی حکمران پارٹی کی قیادت کی دوڑ اپنے اختتام کو پہنچی ہے ایک صبر آزما اور پر پیچ پراسیس کے بعد۔سنسنی خیز لمحات ہیں کہ بورس جانسن یا جیریمی ہنٹ میں کون بالآخر اس عہدہ کیلئے کامیاب ٹھہرتا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور آخر کار ٹوری کی مشہور 1922کمیٹی شریک چئیرمین اعلان کرتی ہیں کہ بورس جانسن 92153کنزرویٹو ممبران کے ووٹ لےکر لیڈر بننے میں کامیاب ہوئے ہیں جب کہ جیرمی ہنٹ کو 46656ووٹ مل پائے ہیں۔ بورس جانسن آج بروز بدھ وزارت عظمیٰ کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہو رہے ہیں۔ لیکن مبصرین کے نزدیک ان کو یہ عہدہ ملنا کئی چیلنجز کا گویا نقطہ آغاز ہوگا ۔اس لیے اس اہم موقع پر ضروری ہے کہ بورس جانسن کو برطانیہ کے اندر اور باہر درپیش صورت حال اور چیلنجز کی ایک اجمالی تصویر پیش کی جائے۔ اہم ترین چیلنج بریگزٹ ہے ۔ اسی ضمن میں یورپی یونین سے تعلقات کار، سرحدی تنازعات ، نمبر ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے عہدہ جلیلہ کا بچاو، اگلا الیکشن اور اس تناظر میں نئے چیلنجز ، گلف پالیسی ، ہانگ کانگ ایشو ، ڈونلڈ ٹرمپ سے میل جول نئے معاہدات ، دولت مشترکہ کے ممالک سے ریلیشن شپ جب کہ آج کی برطانوی سیاست ماضی کے برعکس چار رستوں میں منقسم ہو چکی ہے، جیسا کہ اگلے روز کے دی ٹائمز لندن نے اپنے اداریہ میں نشاندہی کی ہے۔ لیبر، دی کنزرویٹو، دی لبرل ڈیموکریٹس اور دی بریگزٹ پارٹی،اور یہ سب ووٹروں کا قابل ذکر شیئر رکھتی ہیں اب یہ فریکچرڈ پالیٹیکس یعنی خراب یا منقسم سیاست کسی اگلے عام انتخابات میں کیا سیاسی نقشہ دکھائے گی کوئی طریقہ نہیں کہ اس کی پیش گوئی کی جاسکے اور اس نئی سیاسی صورت حال سے بورس جانسن کیسے نمٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں یہی ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا۔ برطانیہ کا آج کا جو سیاسی منظر ہے اسے برطانیہ کا یہ قدیمی اخبار غیر معمول طور قرار دے رہا ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر دکھائی نہیں دیتی ۔ ملکی منظر نامہ کچھ یوں ہے: بطور حکمران پارٹی کنزرویٹو کے لیڈر اور بطور وزریراعظم بورس کے لیے یہ صورت احوال البتہ شاید فائدہ مند ہو کہ حزب اختلاف کی بڑی جماعت لیبر پارٹی کے اندر اختلاف کی باتیں اخبارات کی زینت بننا شروع ہوگئی ہیں دی ٹائمز کے پالیسی ایڈیٹر اولیور رائٹ نے پیر 22 جولائی کے روز کے اخبار کے صفحہ اول پر باخبر کیا ہے کہ لیبر پارٹی کے پانچ میں سے دو اراکین چاہتے ہیں کہ پارٹی لیڈر تبدیل کیا جائے- دی ٹائمز کو معلوم ہوا ہے کہ تازہ ترین پول میں لیبر پارٹی ممبرز کی 42 فیصد تعداد کا کہنا ہے کہ مسٹر کوربائین بطور لیڈر ایک بیڈ جاب bad job ، ادا کر رہے ہیں اور 27 پرسنٹ کی رائے تھی کہ بطور پارٹی لیڈر مسٹر کوربن سٹیپ ڈاؤن step down کرکے اگلے انتخابات میں مقابلے کے لیے ایک نئے لیڈر کو موقع دیں ۔لیبر کے اندر کھینچا تانی بورس جانسن کے لیے آئندہ الیکشن میں شاید نیک شگون ہو مگر ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے اندر اگر قیادت کی جنگ اگر سنجیدگی سے سر اٹھاتی ہے تو یہ صورت حال سیاسی عدم استحکام کی مظہر ہی قرار دی جائے گی جو ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے کسی بھی طور خوش آئند قرار نہیں دی جاسکتی۔ کوربن کی گراس روٹس پر حمایت کمی آنے کی وجوہات میں ایک وجہ ان کی بریگزٹ معاملہ کی ہینڈلنگ handling ہے جس پر بعض بنیادی پارٹی اراکین میں عدم اطمینان بڑھ رہا ہے لیکن اس حوالے لیبر اکیلی ذمہ دار نہیں بلکہ بریگزٹ ہی وہ بنیادی ایشو ہے جس باعث حکمران جماعت ٹوریز کو اپنے وزرائے اعظم تک بدلنے پڑے ہیں دوسری وجہ جو کوربائین کے لیے لیبر پارٹی کے اندر بحران پیدا کر سکتی ہے وہ اینٹی سمیٹی ازم ہے ۔ حالانکہ لیبر لیڈر نے اس حوالے اہم اقدامات اٹھائے ۔ جبکہ بورس جانسن اب لیڈر بننے کے بعد یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا وہ برطانیہ کو بریگزٹ بحران سے عہدہ برآ ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے ؟ کیا بورس جانسن خود اپنے وعدوں کا پاس اور اعتبار بھی رکھ سکیں گے ؟ یہ خاصے مشکل سوالات ہیں۔ بورس جن کے متعلق پہلے سے ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ موسٹ فیورٹ ہیں مگر ساتھ ہی پہلے سے ہی بعض سینئر ٹوریز نے ان کی کابینہ میں کام سے معذرت ظاہر کرنا شروع کر دی تھی جو ایک نئے بحران کی طرف اشارہ ہے ۔ بورس جانسن کو درپیش چینلجز گنجلک یعنی انتہائی پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ان کو متوقع چیلنجز کے پیش نظر سابق لیبر وزیراعظمم ٹونی بلیئر نے دی ٹائمز میں ہی اپنا مشاہدہ اور کامنٹری پیش کی ہے جس میں انہوں نے مدلل طور پر یہ نقطہ پیش کیا کہ کیوں جانسن کو ایک اور ریفرنڈم منعقد کراناچاہئے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ اپوزیشن لیبر پارٹی کی موجودہ کمزور صورت حال کے تناظر میں مسٹر جانسن کیلئے ایک جنرل الیکشن کرانا شاید زیادہ پُرکشش آپشن ہو تاکہ وہ اپنی ٹوری پارٹی کو فائدہ پہنچا سکیں مگر ملک کو درپیش بحران بریگزٹ ڈیڈ لاک سے نکلنے کا واحد رستہ نو ڈیل پر پبلک ووٹ ہولڈ کرناہے۔ انہوں نے لیبر کی کمزوریوں کے باعث جانسن کی جانب سے عام انتخابات کے انعقاد کے آپشن کو ناقابل قبول اور ملک کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ وزیراعظم بننے سے پہلے ہی بورس جانسن نے چونکہ اپنے آپ کو ایک نو ڈیل بریگزٹ میں مقید کر لیا تھا اور اگر وہ اپنی بیان کردہ پوزیشن سے بیک ڈاؤن نہیں کرتے تو وہ فیل ہوجائیں گے۔ اس سچویشن میں وہ پارلیمنٹ سے دفاع میں ایک نو ڈیل کے ذریعے دباو ڈالنے کی ٹرائی کرسکتے ہیں۔ ایک الیکشن کال ، انتخابات کا انعقاد کر سکتے ہیں۔ یا لوگوں کے ہاس ایک ریفرنڈم کی شکل میں واپس جاسکتے ہیں اور نو ڈیل یا یورپ کے اندر رہنے کے آپشن دے سکتے ہیں مگر درست طریقہ اور صحیح اپروچ لوگوں کے پاس ایک ریفرنڈم میاں واپس جانا ہے۔ بریگزٹ بذات خود ایک مسئلہ ہے ہم نے ایک سنگل ایشو ریفرنڈم کے ذریعے انخلاء کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ کیا نوڈیل بھی اسی بنیاد پر کی جائے اسے معمول کے سیاسی بزنس کے ساتھ مکس نہ کیا جائے۔ مسٹر جانسن کی بریگزٹ پر پوزیشن کے متعلق قابل زکر بات مسٹر بلئیر کے نزدیک ان کا یہ جاننے میں ناکام رہنا ہے کہ تھریسا مے آخر کیوں اس مسئلہ پر ناکام رہیں ۔ خیال رہے کہ ٹونی بلئیر کو اب بھی برطانوی سیاست میں ایک بڑے رہنما کے طور پر لیا جاتاہے اور ان کی باتوں کو وسیع حلقوں میں قبولیت ملتی رہی ہے ۔انہوں نے بریگزٹ سے جڑے مسائل کی گہرائی سے مشاہدہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر برطانیہ سنگل مارکیٹ اور کسٹم یونین کو چھوڑتا ہے تو اس سے تناو بڑھے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ جزائر آئر لینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنوبی اور شمالی آئرلینڈ یورپی یونین کے ساتھ مختلف طرح کے تعلقات کار قائم کرنے پر مجبور ہوں گے اور یورپین یونین کا بارڈر ان دونوں کے درمیان ایک بارڈر ہوگا۔اس لیے اگر برطانیہ یورپی تجارتی ارینجمنٹس European trading arrangements چھوڑتا ہے تو سرحدوں پر علیحدگی اور تناو پیدا ہوگا بلکہ خاص بات یہ بھی ہے کہ خود بورس جانسن جبکہ وہ وہ وزیر خارجہ تھے برطانوی حکومت نے اس امر کو ملکی مفاد میں یقینی بنانے کی طرف اقدامات اٹھائے تھے کہ آئریش بارڈر کھلا رہنا چاہئے کہ یہی برطانیہ کا مطالبہ اور ضرورت تھی ۔ تاکہ امن کے عمل پر عمل درآمد ہو سکے اور جنوبی اور شمالی آئرلینڈ کے مابین ریلیشنز استوار رہ سکیں۔ یقیناً” 2016 کا ریفرنڈم بریگزٹ کا مینڈیٹ دیتا ہے لیکن ایک نو ڈیل بریگزٹ کا نہیں بلکہ برطانوی عوام کو مسلسل یہ باور کرایا گیا تھا کہ ایک معاہدہ ہوگا اور یہ ایک آسان عمل ہوگا اس لیے اس حوالے پبلک کی تصدیق کرانا ضروری ہے۔ ڈومیسٹک افئیرز کے علاوہ بورس جانسن کو بعض پیچیدہ نوعیت کے فارن افئیرز سے بھی واسطہ پڑے گا ہر چند کہ آپ اس حوالے اپنے فارن سیکرٹری کے تجربات سے بہر طور استفادہ کرسکیں گے۔ تازہ واقعہ ایرانی ٹینکر بحران کا ہے جس پر برطانیہ کا ریسپانس سست رہا ہے اس کی وجہ ملک کی حکمران پارٹی کو لیڈرشپ کا چیلنج درپیش تھا۔ اور غالبا” بریگزٹ پس منظر برطانیہ کے روایتی رفقاء کو دور کرنے کا باعث بن رہا ہے دی ٹائمز نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا ہے کہ اس واقعہ نے برٹش فارن پالیسی میں بعض مسائل کی نشاندہی کی ہے اور متعدد سوالات سامنے آئے ہیں ۔ جن میں ایک سوال برطانیہ کی نیول طاقت پر بھی اٹھتا ہے جو کئی سالوں کے بجٹس میں کٹوتیوں کا نتیجہ ہے۔جبکہ برطانیہ کو اپنے مفاد میں بھی گلف پالیسی پر غور کرنے اور ایران کے ساتھ پیدا شدہ تنازع کو حل کرنے کی ضرورت ہے ادھر فنانشل ٹائمز ویک اینڈ میں کرس پیٹن جو ہانگ کانگ میں آخری برطانوی گورنر تھے نے نقطہ نظر میں یہ توجہ دلائی ہے کہ برطانیہ کو ہانگ کانگ سے متعلق اپنے وعدوں کی لازمی طور پر پاسداری کرنا ہو گی برطانیہ نے وہاں کے لوگوں کی اٹانومی اور آزادی کا وعدہ کر رکھا ہے سو آج برطانیہ چین کے ساتھ اپنے ریلشنز کیسے ہینڈل کرے؟ کیا برطانیہ ہانگ کانگ کے باشندوں کی آزادی ،حقوق و اور ان کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اپنا عالمی کردار ادا کر سکے گا؟۔ اسی طرح بطور برٹش پاکستانی کشمیری ہمارے سامنے بورس جانسن کا یہ کردار بھی سامنے رہے گا کہ کیا وہ ماضی کی بعض اپنی ٹوری پارٹی کی حکومتوں کی مانند تجارتی مفادات کیلئے بھارت نوازی کا ثبوت دیں گے اور کشمیر پر بھارت کے جارحانہ کردار اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز کر دینگے یا پھر وہ برطانوی حکومت کے کردار کو حق و انصاف کے اصولوں سے ہم آہنگ کر کے کشمیری عوام کیلئے بھی کوئی مصالحانہ کردار ادا کرنے پر غور کریں گے ؟ اسی طرح پاکستان کے لیے تعلیم اور دیگر ترقیاتی شعبوں میں برطانوی امداد میں اضافہ کی بھی برٹش پاکستانیز ان سے توقعات رکھتے ہیں ۔