....دیر کتنی لگتی ہے

August 06, 2019

سینیٹ کی حالیہ صورتحال نے امام زین العابدینؓ کا فرمان یاد کروا دیا ہے۔ بیمارِ کربلا نے فرمایا تھا کہ ’’کوفہ ایک شہر کا نہیں، ایک مزاج کا نام ہے، کوفہ ایک کیفیت کا نام ہے، دنیا کے کسی بھی خطے میں یہ مزاج مل سکتا ہے‘‘ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے پہلے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے لیڈران کا ایک عشائیہ ختم ہوتا تھا تو دوسرے کا پروگرام بن جاتا تھا۔ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کی چاہت میں انہوں نے چودہ سے زائد ملاقاتیں کیں، ہر ملاقات میں ایک سے بڑھ کر ایک دعویٰ کیا گیا، مولانا فضل الرحمٰن سے دعائیں بھی کروائی گئیں، انہیں فیصلوں کا اختیار دے دیا گیا۔ تحریک عدم اعتماد سے پہلے اپوزیشن کے کئی اکٹھ ہوئے، ان میل ملاقاتوں کے درمیان کہیں شبلی فراز اور جام کمال بھی مولانا فضل الرحمٰن کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے مولانا کو بہت سمجھایا، گزارش کی کہ یہ جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہے، ایسا نہ کریں مگر مولانا نے صاف جواب دیا کہ ’’آپ نے بہت دیر کر دی، پھر میں اپنی قیادت میں ہونے والا فیصلہ کیسے بدل سکتا ہوں‘‘۔

ہمارے سادہ مزاج دوست میر حاصل بزنجو کوفہ کے مزاج سے واقف نہیں تھے، وہ اپوزیشن کی طرف سے مشترکہ امیدوار بننے کے بعد خود کو چیئرمین سینیٹ سمجھنا شروع ہو گئے تھے، ان کے پاس 64ووٹ تھے، اوپر سے مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے دعوے بھی سر چڑھ کر بول رہے تھے، حاصل بزنجو کے دل میں یہ تھا کہ بس یکم اگست کو رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔ دوسری طرف صادق سنجرانی نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ مورچہ سنبھالے رکھا، انہوں نے کسی لمحے بھی خود کو لرزتا محسوس نہیں کیا بلکہ انہوں نے شبلی فراز اور جہانگیر ترین کو میدان میں اتارے رکھا۔ یہاں اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ یکم اگست سے ایک دن پہلے ایک اہم کاروباری شخصیت نے ایک زیر حراست اہم سیاسی شخصیت سے ملاقات کی تھی، اس ملاقات نے اپنا بھرپور رنگ دکھایا۔

یکم اگست کو پارلیمنٹ ہائوس میں کوفہ کا مزاج بول رہا تھا، 64ممبران کھڑے ہوئے مگر ووٹ صرف پچاس نے ڈالا، ایک ہی چھت تلے لمحوں میں ’’پھرنے‘‘ کا یہ کوفی عمل ہماری سیاسی تاریخ نے پہلی بار دیکھا۔ جن لوگوں کے ووٹ مسترد ہوئے، ان کے بارے میں بھی چند سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کے ایوان بالا کے اراکین ہیں، ان کی جماعتیں انہیں اپنا سرمایہ کہتی ہیں، سیاسی جماعتیں انہیں تجربہ کار سیاستدان قرار دیتی ہیں، یہ اپنی اپنی جماعتوں کے ’’سلیکٹڈ‘‘ ہوتے ہیں، یہ اپنے گھروں کیلئے بڑھاپے میں ’’کمائو پتر‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔ ان کمائو پتروں نے ایسا کوفی مزاج دکھایا کہ ان کی قیادتیں حیران ہو گئیں، شہباز شریف غصے کے عالم میں پریشان بھی ہوئے، بلاول بھٹو زرداری کا پسینہ خشک نہیں ہو رہا تھا، سادہ حاصل بزنجو چکرا گیا، اس نے اسی چکر میں جس کا نام لیا، وہ اسے کسی اور نے بتایا تھا۔

خواتین و حضرات! اس سے بڑھ کر کوفہ کا مزاج اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہار کے بعد اپوزیشن کا جو اجلاس ہوتا ہے، اس میں ایک مرتبہ پھر سینیٹرز کی تعداد پوری ہوتی ہے، کھڑے ہونے سے آخری اجلاس تک تعداد پوری رہتی ہے مگر خفیہ ووٹنگ کے وقت پتا نہیں ان کے دل کیوں ڈول گئے، اتنی دیدہ دلیری سے منافقت اس سے پہلے پارلیمنٹ ہائوس نے نہیں دیکھی تھی۔ اسلام آباد کے مزاج پر برسوں پہلے منصور آفاق نے شعر کہا تھا کہ ؎

دن کو کاروں میں شب کو سڑکوں پہ

شہر، خنزیر تیرے رکھوالے

آپ کو یاد ہو گا کہ صادق سنجرانی کو بڑی محبت کے ساتھ آصف علی زرداری اور عمران خان نے چیئرمین سینیٹ بنوایا تھا، اُسے ووٹ دیئے تھے جب اسے توقع سے زیادہ ووٹ ملے تو بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ’’بعض مسلم لیگیوں کے ضمیر جاگ اٹھے ہیں‘‘ اب اُسی بلاول بھٹو کے پسینے آ رہے ہیں، وہ غصے میں ہے، پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے استعفے پیش کر دیئے ہیں، مسلم لیگیوں کو تو یہ توفیق بھی نہیں ہوئی۔ ان کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے الٹا پیپلز پارٹی پر الزامات لگا دیئے ہیں۔ اب یہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں گے مگر کریں گے کچھ نہیں۔ آپ کو پچھلا سینیٹ الیکشن یاد ہو گا جس میں خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف کے کچھ ممبران نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی تو عمران خان نے حکومت کی پروا کئے بغیر ان ممبران کو پارٹی سے فارغ کر دیا تھا، اس کے صوبائی وزیر نے کرپشن کی تو اسے گرفتار کروا دیا۔ خلاف ورزی کرنے پر عمران خان نے تو اپنے ممبران فارغ کر دیئے تھے مگر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی ایسا نہیں کریں گی۔ ایسا کرنے کے لئے جرأت چاہئے اور یہ جرأت دونوں جماعتوں کی قیادتوں کے پاس نہیں ہے۔

اسلام آباد میں آپ نے کوفہ کا مزاج دیکھا، کربلا کا مزاج آپ مقبوضہ کشمیر میں دیکھ سکتے ہیں مگر میری سیّد علی گیلانی سمیت حریت کانفرنس کی قیادت سے استدعا ہے کہ آپ سیدنا حسینؓ کے ماننے والے ہیں، ظلم کے سامنے کھڑے رہیں کیونکہ حضرت حسینؓ کے والد گرامی حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ’’کوئی حکومت ظلم کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتی‘‘ حوصلہ رکھئے، کشمیر کی وادی میں ظلم کا سورج غروب ہونے والا ہے، وہاں آزادی کی سویر طلوع ہو رہی ہے کہ بقول نوشی گیلانی ؎

کچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے

برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے