وقت کم ہے اور مقابلہ سخت

September 15, 2019

ذوالفقار علی بخاری

عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ کام کی زیادتی، وقت کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں، خاص طور پر تب، جب وہ ناکام ہو جائیں۔ وقت ایک ایسی دولت ہے، جو بلا امتیاز ہر کسی کو یک ساں میسّرہے، کوئی اس دولت کو چھین سکتا ہے اور نہ ہی اسے محفوظ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ البتہ، یہ ضرور ہے کہ اگر یہ ایک بار ہاتھ سے نکل جائے، تو کسی صُورت واپس نہیں آتا۔ اسی لیے سیانے کہہ گئے ہیں کہ ’’وقت کی قدر کرو کہ یہ ریت کی مانند ہاتھ سے پھسل جاتا ہے۔‘‘ جانتے ہیں، کام یاب اور ناکام افراد میں بنیادی فرق کیا ہے’’ٹائم مینیجمنٹ اِسکلز ‘‘ہے۔ جو انسان اپنے وقت کو صحیح اور مثبت سرگرمیوں میں استعمال کرتا ہے، کام یابی اس کا مقدّر ضرور بنتی ہے۔ ہمارے ارد گِرد ایسے افراد کی کمی نہیں ،جو اکثر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ملازمت، گھریلو کام کاج یا پڑھائی کی وجہ سے ہم اپنے مشاغل کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتے، لیکن ایسے بھی کئی افراد ہیں، جو ٹائم مینیجمنٹ کے ذریعے پروفیشنل اور ذاتی تمام کام بہ خوبی سَر انجام دیتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے، کام یاب انسانوں کی سب سے بڑی خُوبی وقت کی قدرو قیمت سے آگاہی ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ تمنّا کرتے ہیں کہ ’’کاش! دِن میں کچھ اور گھنٹے ہوتے، تو ہم اپنے ادھورے کام مکمل کرپاتے۔‘‘ظاہر ہے، اب یہ تو ممکن نہیں، مگر ہم آپ کو ایسی چند کار آمد تجاویز دے رہے ہیں، جن پر عمل کرکے آپ کے وقت کی بچت ممکن ہے۔ مثلاً:

٭اپنی تمام تر توجّہ روز مرّہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں پر مرکوز رکھیں اور جائزہ لیں کہ ایسے کون سے کام ہیں، جو آپ جلدی جلدی نمٹا کر دِن کا ایک آدھ گھنٹہ بچا سکتے ہیں۔آج کا کام کل پر چھوڑنے کی بہ جائے ’’ابھی‘‘ کرنے کی عادت ڈالیں۔دِن چڑھے سوتے رہنے کی بہ جائےصُبح سویرے اُٹھیں۔ کبھی غور کیجیے گا کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے، خالی بیٹھے رہنے سے نہ صرف سُستی، کاہلی ہوتی ہے، بلکہ طرح طرح کے فضول خیالات بھی دماغ جکڑ سا لیتے ہیں۔ یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے کارپیدا نہیں کیا، اپنی صلاحیتوں سے آگاہی حاصل کرنے اور مقصد کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہوجائیں۔ دِن کا آغاز اللہ تعالیٰ کے با برکت نام سے کریں، ناشتا کرنا ہر گز نہ بھولیں کہ اس سے آپ کو دِن بَھر کے کام انجام دینے کی توانائی حاصل ہوگی۔ توانا و تازہ ذہن تخلیقی صلاحیتوں سے بَھرپور ہوتا ہے۔ ضروری امور جتنی جلدی نمٹائیں گے، خود کو دینے کے لیے اتنا زیادہ وقت نکال پائیںگے۔

٭شاپنگ، بینک کے کام اور یوٹیلیٹی بلز وغیرہ جمع کروانا، بہ ظاہر وقت طلب کام نہیں لگتے، لیکن بعض اوقات ان میں پورا دِن لگ جاتا ہے۔بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بنا کسی عذر کے، آخری تاریخ ہی پر بل جمع کرواتے ہیں اور پھر لمبی قطار، دھوپ، گرمی میں پریشان ہوتے ہیں، لہٰذا اگر آپ کے پاس پیسے ہیں، تو بر وقت تمام بلز جمع کروادیں تاکہ بعد میں انتظار کی کوفت نہ اُٹھانا پڑے۔

٭ زیرِ استعمال اشیاء کو سنبھال کر ان کی مخصوص جگہ پر رکھیں، تاکہ وقتِ ضرورت اِدھر اُدھر تلاش کرنے میں وقت ضایع نہ ہو۔ اکثر نوجوان جلدی میں جہاں دِل چاہے چیزیں رکھ دیتے ہیں اور بعد میں پریشان ہوتےرہتے ہیں۔ اس طرح ان کا وقت بھی ضایع ہوتا ہے اور پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔

٭ضروری کاموں کی تاریخوں کو کیلینڈر پر مارک کرلیں، تاکہ ان تاریخوں پر انجام دینے والے کام بر وقت ہو سکیں۔

٭کسی کام کو یہ سوچ کر مت ٹالیں کہ ابھی ضروری نہیں، کل کر لوں گا، یاد رکھیں، ’’کل‘‘ کبھی نہیں آتا۔ مشاہدے میں ہے کہ طلبہ کی اکثریت اسائمنٹس یا امتحان کی تیاری کو یہ کہہ کر ٹالتی رہتی ہیں کہ ابھی بہت وقت باقی ہے، پھر جب اسائنمنٹ جمع کروانے کی تاریخ سر پہ آتی ہے، تو ہڑبڑاہٹ میں جلدی جلدی کام کرتی ہے، جس سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور معیاری کام بھی نہیں ہو پاتا۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ایک ٹائم ٹیبل بنائیں اور اس کے تحت تمام سرگرمیاں انجام دیں۔ اسی طرح جو لوگ ملازمت پیشہ ہیں، انہیں چاہیے کہ چھٹّی والے دِن ہفتے بَھر کے کپڑے استری کرکے رکھ لیں، تاکہ روزانہ استری کا جھنجھٹ نہ ہو اور وہ وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزاریں۔

٭جو کام ایک فون سے ہوسکتا ہے، اس کے لیے خود جانے کی ضرورت نہیں کہ ٹریفک اور آنے جانے میں وقت ہی ضایع ہوگا۔

یاد رکھیں! شکوے شکایات کرنا انتہائی آسان اور اپنی کوتاہیوں، خامیوں کو دُور کرکے آگے بڑھنا انتہائی مشکل ہے، لیکن کام یاب وہی ہوتے ہیں، جو اپنی کم زوریوں پر قابو پالیں۔ اگر آپ آج اپنے وقت کی قدراور اس کا صحیح استعمال نہیں کریں گے، تو کل پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔