تعلیمی نظام۔۔۔ہم کہاں اور دنیا کہاں؟

September 16, 2019

پیغام وقت… میاں محمد ادریس

انسانی معاشروں کی ترقی و استحکام کیلئے دو اجزاء نے ہمیشہ ہی بنیادی کردار ادا کیا ہے؛ تعلیم اور نوجوان نسل۔یہی وہ اجزاء ہیں جو سوسائٹی کے وجود میں فساد اور رجعت پسندی کو ختم کر کے تازگی اور جدیدیت کا احساس دلاتے ہیں کہ جسکے نتیجے میںمعاشرے کی تندرست زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ان کلمات کو کسی مفکر کے اقوال زریں سمجھنے کی بجائے اگر تاریخ کا عمل اور تسلسل تصورکیا جائے تو ممکن ہے کہ ہم اس تحریر کو کوئی نتیجہ دے سکیں۔ماضی قریب میں بیسویں صدی اسکی بہترین مثال ہو سکتی ہے کہ جسمیں ہماری ہمسائی کتنی ہی "گراں خواب "اقوام انہی دو سہاروں کے بل پہ اس طرح بیدار ہوتی ہیں کہ کمزور و محکوم معاشروں اور اقوام کیلئے بصارت و گویائی بن جاتی ہیں۔اس سارے عمل میں نوجوان طبقے کا کردار ہر صورت سب سے ممتاز رہا ہے کہ جس نے ایشیا ء کے دورو نزدیک میں پھیلے انسانوں کو ان کی اہلیت پہچاننے کیلئے اپنی ذمہ دار ی بھر پور انداز میں نبھائی۔یہ ایشیائی نوجوانوں کی کاوشوں کا ہی نتیجہ تھا کہ سامراجی و استحصالی طاقتیں اس خطہ میں دہائی بہ دہائی ایسی کمزور پڑیں کہ انہیں یہاں سے بھاگتے ہی بنی۔اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کا جائزہ اسی تاریخی سبق کے ذیل میں لیں جو تہذیبوں کے عروج و زوال پر بلا شک و شبہ ضامن ہے۔کیوں نہ اس تجزیہ کی بنیاد ہم درج ذیل سوالات کو بنائیں:کیا ہمارا معاشرہ تعمیر و ترقی کے مدارج صحیح سمت میں طے کر رہا ہے؟کیا ترقی کے عمل میں سب سے معتبر عنصر، نوجوان طبقے کی صلاحیتوں کو آزمایا جا رہا ہے؟ان سوالوں کا جواب "نہیں "کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتالیکن ممکن ہے کہ لوگ اس پر اعتراض کریں۔تو آئیے کیوں نہ ہم ان کے اعتراضات کے جواب میں کچھ اور سوالات قائم کریں۔

1۔ کیا ہمارا مستقبل کا معمار متذبذب (Double minded) نہیں؟کیا اس کا اندازہ ہم اپنی کمزور ہوتی قوت فیصلہ سے نہیں لگاتےکہ جس نے ہمیں اچھائی و برائی اور ظلم و عدل میں دو ٹوک امتیاز کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ (ایک محتاط اندازے کے مطابق ہماری آدھی سے زیادہ آبادی واضح اور دو ٹوک فیصلہ جات کرنے سے قاصر ہے اور جمہوری نقطہ نظر سے یہ ہماری اجتماعی ذہنی صلاحیت اور پختگی کا آئینہ دار ہے)اب ذرا اپنے خاندان یا گردو پیش میں دیکھئے، آپ کو کتنے ہی ایسے نوجوان ملیں گے جو عین شباب و مرقع ترقی کےدور میں معاشرے کیلئے کار آمد ثابت نہیں ہو پاتے۔کیا آپ اس کو صلاحیت کی کمی کہیں گے؟بہتر ہے ایسا کہنے سے پہلے اگلے سوال کا جائزہلے لیں۔

2۔ کیا ہمارے نوجوان کی شعوری بنیادوں پر تربیت کی جا رہی ہے؟انسان کو اگر اسکی فطرت کے ترازو میں تولا جائے تو ترتیب یہ بنتی ہے کہ وہ خود کو پہچانتا ہے، اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھتا ہے، معاشرے میں اپنے کردار و حیثیت سے آگہی حاصل کرتا ہے ا ور پھر عملی طور پر معاشرے کا حصہ بننے کے قابل ہو تا ہے۔ان تمام مراحل کو آپ نوجوانوں کا تعلیمی دور بھی کہہ سکتے ہیں۔لیکن شومئی قسمت کہ دوران تعلیم نوجوان طبقے کی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشنے کی بجائے شعوری بصیرت سے عملاََمحروم کر دیا جاتا ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ گرد و پیش کو تو کیا سمجھے گا الٹا خودی سے بھی جاتا ہے۔یقیناََ ایسا ہی ہے لیکن کیوں؟ابھی ذرا اور دیکھئے،بات کو آسان بنانے کیلئے ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کے کتنے فیصد نوجوانوں کو تعلیم (بغیر تربیت)کے مواقع حاصل ہیں۔تو حقائق یہ ہیں کہ 60فیصد سے زیادہ کسی طرح بھی نہیں۔یہ 60فیصدبشمول اطفال ہیں جبکہ کالج و یونیورسٹی طلباء کی تعداددو فیصد ہے اور یہ دو فیصد اس 60فیصد کا ہے۔اب غیر زود ہضم المیہ یہ ہے کہ یہ شرح تعلیم تیسری دنیا کے کمتر و غیر ترقی یافتہ ممالک میں سب سے کم ہے اور اس سے بھی نیچے کا دور تو صرف پتھر کا دور ہی ہو سکتا ہے۔بال کی کھال اتارنے کی اجازت دیجئے اور ملاحظہ فرمائیے کہ 60فیصد معماروں میں سے کتنے مکمل تعلیمی سہولیات سے استفادہ کر رہے ہیں تو مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہوئے کہوں گا کہ اس 60فیصد کا 0.25فیصدکہ جس کا 40فیصد ترک وطن کرتا ہے اور بقیہ 60فیصد فرق وطن کرتا ہے(اور ہاں یہ فرق تفریق سے ہے)۔دوسری طرف دیکھئے ہمارے ہی جیسے حالات سے نبرد آزما بنگلہ دیش، انڈیا اور سری لنکا نے اپنے اپنے ملک کے بالترتیب 73فیصد،74فیصد اور 96فیصدنوجوانوں کو اس طریق پر تعلیم دی ہے کہ وہ دوسرے ممالک کیلئے معلم کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس ساری صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو کیسے موثر بنا سکتے ہیں۔ گو کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں علمی ترقی کیلئے کافی تگ و دو کی جا چکی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے معیاری تعلیمی ادارے وجود میں آ چکے ہیں جن کی بدولت شرح تعلیم میں اضافہ ممکن ہوا۔ لیکن بنیاد اگر وہی لارڈ میکالے کی دو سو سالہ پرانی سوچ ہے تو یقیناََ ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ایک ایسا تعلیمی نظام وقت کی اہم ضرورت ہے جو نوجوان نسل کو نہ صرف تعلیم سے بہرہ ور کرے بلکہ انکی شعوری بنیادوں پر مکمل عملی تربیت بھی کرے۔ جو نہ صرف عصر حاضر کی ضروریات کو پورا کرے بلکہ ہماری مشرقی و اسلامی روایات کا امین بھی ہو۔تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری کچھ گذارشات درج ذیل ہیں؛

1۔ سرکاری سر پرستی میں فی الفور ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جوتمام صوبوں کی نمائندگی کرتے ہوئے تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے ایک مکمل پالیسی تیار کرے۔

2۔ تعلیمی بجٹ کو فی الفور دو گنا کیا جائے جس میں خاطر خواہ حصہ ریسرچ کا رکھا جائے۔

3۔ ملک میں شرح اور معیار تعلیم کی بہتری کیلئے اگلے دس سال کیلئے تعلیمی ایمر جنسی نافذ کی جائے۔

ان گذارشات میں سب سے بنیادی گذارش بہر حال ایک کمیٹی کی تشکیل ہے جو آئندہ کے لائحہ عمل پر مکمل آزادی اور جانفشانی کے ساتھکام کرے۔ان گذارشات پر عملدرآمد یا کسی بھی قسم کی تعلیمی خدمت کیلئے راقم ذاتی حیثیت میں ہر لمحہ دل و جان سے حاضر ہے۔قدرت نے شاید ہمیں اب بھی وقت عنایت کر رکھا ہے کہ ہم اپنی بنیادیں ٹھیک کر سکیں۔علم و شعور، عمل و کردار اور ایمان و اخلاقیات کی مشعل روشن کر سکیں۔آئیں!ا پنی آئندہ نسلوں کی بہتری کیلئے ا س موقع کو ایک بہترین اور آخری موقع تصور کرتے ہوئےاپنی بہترین کاوش کر گزریں۔