پارلیمنٹ ڈائری،پیش آمدہ ایام میں ایوان ہنگامہ خیز مناظر کوجنم دے سکتاہے

September 17, 2019

اسلام آباد (محمد صالح ظافر ،خصوصی تجزیہ نگار) قومی اسمبلی کا اجلاس دھیمے سروں میں شروع ہونے کے بعد اب تیزی پکڑنے لگا ہے اور پیش آمدہ ایام میں ایوان ہنگامہ خیز مناظر کوجنم دے سکتاہے۔ اسپیکر اسد قیصر نے حکومتی فرمائش کے عین مطابق اسیر ارکان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے میں لگاتار لیت و لعل سے کام لینا شروع کر رکھا ہے اور حزب اختلاف کے وہ ارکان جن کی رکنیت برقرار ہے اور انہیں نیب نے متنازع مقدمات میں ماخوذ کرکے حوالہ زنداں کر رکھا ہے اپنے حلقہ ہائے نیابت کی نمائندگی کے حق سے محرروم ہیں پیر کوان کے لئے پیپلزپارٹی کی رہنما محترمہ شازیہ مری نے آواز بلند کی ان کا استدلال تھا کہ اسپیکر ان ارکان کو کارروائی میں حصہ لینے کے لئے قبل ازیں پروڈکشن آرڈرز جاری کرچکے ہیں یہ مشن جاری رہنی چاہئے کیونکہ یہ ارکان مجرم نہیں ہیں محض الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔پیپلزپارٹی کی خاتون رکن نے ایسے ایوان میں جہاں حاضری مایوس کن حد تک کم تھی زیادہ شور تو نہیں کیا تاہم یہ انتباہ ضرور جاری کیا کہ اگر پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوئےتو قومی اسمبلی میں زبردست احتجاج ہوگا۔ اس طرح انہوں نے واضح کردیا کہ ایوان کی کارروائی میں رخنہ اندازی ہوگی یہ چل نہیں سکے گا۔ حزب اختلاف قصد کرچکی ہے کہ وہ ہفتہ رواں سے باقاعدگی کے ساتھ ایوان میں اپنے مطالبہ کے لئے آواز اٹھائے گی اور پھر اسے ایوان سے باہر لے جائے گی اور پارلیمنٹ ہائوس کے مرکزی دروازے کے سامنے دھرنا دینگے۔ شاہراہ آئین پر ڈی چوک کے سامنے دھرنے کی شروعات ہوجائے گی اس سے متصل وہ مقام ہے جہاں تحریک انصاف اور مولانا طاہرالقادری کی عوامی تحریک دھرنے دے چکی ہے اور اب مولانا فضل الرحمٰن کے بڑے دھرنے کی آمد آمد ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رکن نور عالم خان اپنی ہی حکومت کے خلاف پھٹ پڑے اس درویش مزاج رکن نے نادار اور افلاس زدہ عوام کے لئے آواز اٹھاتے ہوئے احتیاط کے ہر تقاضے کو ہاتھ سے چھوڑ دیا انہوں نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا کہ ادویات اور یوریا کھاد کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہورہا ہے جس کا نوٹس لیا جائے، بجلی پھر مہنگی کردی گئی ہے، گیس مہنگی کرنے کا کیا جواز ہے۔ نور عالم خان جو طبعاً آواز کو کم رکھ کر بات کرتے ہیں انہوں نے جذباتی لہجے میں بلند آہنگ ہو کر کہا کہ ہم یہاں غریب لوگوں کے ووٹ لیکر آتے ہیں اگر ہم یہاں غریب کی بات نہیں کرسکتے تو پھر ہم پر لعنت ہو۔ نور عالم قومی اسمبلی کے امیر ترین ارکان میں شمار ہوتے ہیں ان کا کہناتھا کہ ہم یہاں ڈیسک بجانے کے لئے نہیں آتے اگر ہماری باتیں اچھی نہیں لگتیں تو ہم یہاں سے استعفی دے کر چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے بڑے تلخ انداز میں کہا کہ ایسی دس نشستیں قربان کردیں گے لیکن غریب کے لئے آواز اٹھانے سے باز نہیں رہیں گے اور نہ خاموش ہونگے۔ نور عالم خان نے تقریباً للکارتے ہوئے کہا کہ وزیرخزانہ کو طلب کیا جائے اور پوچھا جائے کہ مہنگائی کیوں ہورہی ہے وہ وضاحت دیں احتساب کرنا ہے تو سب کا کریں تمام کرپٹ لوگوں کو کٹہرے میں لائیں۔ قبل ازیں نور عالم خا ن اپنے صوبے میں حکومت کے بعض اہم کل پرزوں کی کرپشن اور بدیانتی کے خلاف زوردار پیرائے میں آواز اٹھا چکے ہیں۔ ان کے نکتہ اعتراض میں بغاوت کے تمام عناصر موجودتھے جس پر حزب اختلاف کے ایوان میں موجود مٹھی بھر ارکان نے داد دی خوب تالیاں بجائیں۔ فیصل آباد سےتحریک انصاف کے رکن راجہ ریاض نے موٹر ویز پر ٹول ٹیکس میں بے تحاشا اضافے پر آوازبلند کی راجہ ریاض نے پارلیمانی سیکریٹری کا منصب قبول کرنے سے انکار کردیا تھا وہ پنجاب میں سینئر وزیر رہ چکے ہیں اور پیپلزپارٹی سے تحریک انصاف میں 2018ء کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل ہی داخل ہوئے تھے۔ وفاقی وزیر مراد سعید جن کی حزب اختلاف پر ’’گولہ باری‘‘ ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے راجہ ریاض کو جواب دینے کے لئے آئے تو انہوں نے ٹول ٹیکس میں اضافے کی ذمہ داری بھی گزشتہ حکومتوں پر یہ کہہ کر ڈال دی کہ وہ اضافے کے لئے معاہدوں پر دستخط کرچکی تھیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزراء ہی نہیں حزب اختلاف کے سرکردہ ارکان بھی غائب تھے اس اجڑے اجلاس میں دو حکومتی ارکان کے باغیانہ نکتہ ہائےا عتراض کے سوا دلچسپی کا زیادہ سامان موجود نہیں تھا۔ وقفہ سوالات بھی نصابی رنگ اختیار کرچکا ہے کسی نے کشمیر کے مسئلے پر لب کشائی نہیں کی یوں لگ رہا تھا کہ ارکان کو کشمیر کی بدترین انسانی صورت حال یاد ہی نہیں رہی۔ صدر مملکت کے خطاب پر بھی بحث شروع نہیں ہوسکی۔ پارلیمانی راہداریوں میں تبدیلی کے چرچے عام تھے حکومتی اور حزب اختلاف کے ارکان یکساں طور پر سراسیمہ اور خوفزدہ دکھائی دے رہے تھے انہیں تبدیلی کا اندیشہ ضرور تھا لیکن وہ اس کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔