سیاسی جماعتوں میں انتخابی کلچر اور الیکشن کمیشن

February 14, 2013

صبح صبح عدیل شفیع کا ٹیکسٹ مسیج ملا کہ لاہور میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں آئی ایس ایف نے 318 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، اخبارات تھوڑی دیربعد آئے تو پتہ چلا کہ جماعتی انتخابات نہ کرانے والی جن جماعتوں کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے نوٹس جاری کئے گئے ان میں تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ آٹھ دس اخبارات میں یہ خبر نمایاں تھی جبکہ ایک کونے میں لاہور کے انتخابات میں تحریک انصاف کے یونٹی گروپ اور نظریاتی گروپ کے دعوے شائع ہوئے کہ کارکنوں نے ان پر اعتماد کیا۔
جماعت اسلامی کے بعد تحریک انصاف نے یونین کونسل سے صوبے اور مرکز کی سطح پر انتخابات کا فیصلہ کیا تو کسی کو یقین نہ تھا کہ ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد کی رکنیت سازی کرنے والی جماعت یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے کرپائے گی دس گیارہ ماہ کے انتخابی عمل میں جماعت کی مقبولیت کو نقصان پہنچا، دھڑے بندی ہوئی اور بعض الیکٹ ایبلز پارٹی چھوڑ گئے مگر دھن کے پکے عمران خان ڈٹے رہے اور آئی آر آئی کی دو سروے رپورٹوں کی پروا تک نہ کی۔
سیاسی جماعتوں میں انتخابات کا رواج پاکستان میں کبھی نہیں رہا۔ خانہ پری البتہ ضرور کی جاتی ہے چند روز قبل قوم کو پتہ چلا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے انتخابات میں مخدوم امین فہیم چیئرمین اور راجہ پرویز اشرف جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ یہ انتخاب کب، کہاں اور کن لوگوں کی موجودگی میں ہوئے؟ کسی نے پوچھا نہ پی پی پی پی کو بتانے کی ضرورت پڑی۔ عدالت عالیہ لاہور کی کارروائی کے دوران ہی قوم کو یہ خبر ملی کہ بھٹو مرحوم اور بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اب کوئی سیاسی پارٹی نہیں نجی ایسوسی ایشن ہے۔ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ، نہ الیکشن لڑنے کی اہل۔ بات منطقی ہے کہ جب پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کم عمری کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑ سکتے تو پارٹی اس کھیکھڑ میں کیوں پڑے۔ چیئرمین نااہل تو پارٹی بھی نااہل۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔
رہی پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز تو یہ بھی صرف الیکشن کمیشن کے کاغذات میں ہے اور یہ الیکشن کمیشن کا کمال ہے کہ جس پارٹی کا پورے پانچ سال کے دوران کسی نے ذکر سنا نہ کسی اجلاس کی خبر آئی، چیئرمین صاحب کو 2008 کے انتخابات کے بعد پارٹی لیڈر بننا بھی نصیب نہ ہوا وہ انتخاب لڑنے کی اہل ہے البتہ تحریک انصاف کو نوٹس جاری کیاگیا ہے کہ وہ انتخاب کرائے ورنہ انتخابی نشان ملے گا نہ الیکشن لڑنے کی اہل ہوگی۔
اقتدار میں بار بار آنے اور ہر شعبہ زندگی کے لوگوں کو جی بھر کر نوازنے کی وجہ سے خاندانی اور موروثی جماعتوں کو نہ تو کوئی پوچھ سکتا ہے اور جمہوریت کا دم بھرنے، بروقت انتخابات پر اصرار کرنے والی جماعتوں کو نہ کوئی نوٹس جاری کرسکتا ہے کہ وہ اپنے اندر جمہوری اور انتخابی کلچر پروان چڑھائیں۔ کارکنوں کو بھی ووٹ کا حق دیں اور متوسط و نیم متوسط طبقے کے کارکنوں کو آگے بڑھنے کی اجازت ہو۔ البتہ تحریک انصاف کی مثال خود اس کے لئے وبال بن گئی ہے۔ اگر خدانخواستہ اسمبلیاں جلد تحلیل ہوگئیں تو ممکن ہے مخالفین مطالبہ کریں کہ انتخابی عمل مکمل نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ہی نہ دیا جائے کہ اس نے دوسری بڑی جماعتوں کی تقلید کیوں نہیں کی اور مروجہ سیاسی کلچر سے انحراف کی مرتکب کیوں ہوئی؟
سیاسی جماعتیں داخلی انتخابات کیوں نہیں کراتیں؟ عام کارکنوں کو فیصلوں میں شریک کرنے سے خائف کیوں رہتی ہیں؟ خاندانِ غلاماں ہی موروثی قیادت کو راس کیوں آتا ہے؟ ہمارے دوست قیوم نظامی بتایا کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو سے کہا آپ پارٹی سیٹ اپ مضبوط کریں۔ انتخابات کرائیں اور ہر سطح پر کارکنوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کریں۔ محترمہ کا جواب چشم کشا تھا ” پھرپارٹی پر ہماری گرفت کمزور پڑ جائے گی“ جنرل پرویز مشرف نے امریکہ اور کئی دوسرے ممالک کی طرز پر دو سے زائد بار وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم بننے پر پابندی عائد کی تو جمہوریت پسندوں نے آسمان سرپر اٹھا لیا۔ 2008ء میں اقتدار سنبھالتے ہی جمہوری حکمرانوں نے ارکان اسمبلی کے لئے بی اے کی تعلیم اور دو بار سے زائد وزارت اعلیٰ و وزارت عظمیٰ پر پابندی کی شرط ختم کی تاکہ ہر ان پڑھ، اجڈ، گنوار اور علم دشمن عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرسکے۔ کیونکہ ان پارٹی سربراہان کو علم ہے کہ وہ سرکاری مناصب پر متمکن اور وسائل پر قابض نہ ہوں تو پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی کہ غلامی اور وفاداری اقتدار اور سرکاری وسائل کی لوٹ مار سے مشروط ہے کسی اصول اور جمہوری وابستگی کی بناء پر نہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے خلاف سازش اور جمہوری اداروں کے عدم استحکام کا رونا اکثر رویا جاتا ہے مگر کوئی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا کہ اگر منتخب حکومتیں اور جمہوریت کی علمبردار جماعتیں داخلی انتخابات کرائیں گی نہ کارکنوں پر اعتماد کریں گی اور نہ بلدیاتی انتخابات اور اداروں کے ذریعے جمہوریت کے فوائد و ثمرات سے عام آدمی کو بہرہ مند ہونے کا موقع دیں گی تو کمزور، بے ثمر اور نچلی سطح پر عوامی تائید و حمایت سے محروم نظام محض ریت کا گھروندہ ہوگا جسے ملیا میٹ کرنے کے لئے کسی سونامی کی ضرورت نہیں۔
عدیل شفیع، حافظ فرحت عباس، وقاص افتخار، عمیر شوکت، مبین سلطان، محمد عثمان، یاسر خان سوری اور گلریز اقبال خوش ہیں کہ نوجوانوں نے معرکہ مار لیا، غریب گھرانوں کے لوگ بھی کسی پارٹی کے عہدیدار منتخب ہوئے مگر پیرانہ سالی اور نسیان کا شکار الیکشن کمیشن کو بھی کوئی خبر کرے کہ تحریک انصاف الیکشن کرانے والی پارٹی ہے۔ نوٹس ان پارٹیوں کو ملنا چاہیے جن کے انتخابات سے عوام تو کیا ان کے کارکن اور نچلی سطح کے عہدیدار بھی بے خبر ہیں۔