آصف علی زرداری… مجرم نہیں، قیدی

September 20, 2019

تحریر: بختاور بھٹو زرداری

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کے سامنے ملک کی دھماکہ خیز صورت ِحال تھی۔ اُنھوں نے قوم کی ڈھارس بندھانی تھی اور غمزدہ، غضبناک اور زخم خوردہ پارٹی کو متحد بھی رکھنا تھا۔ آپ اتنے عظیم نقصان کی تلافی کیسے کرسکتے ہیں؟آپ آگے بڑھنے کی کیا راہ نکال سکتے ہیں؟

زرداری صاحب نے ’’پاکستان کھپے ‘‘ کا نعرہ لگا کر قیادت کاحق ادا کیا، اور ’’جیے بھٹو ‘‘ پکار کر محترمہ کے تصورکی پیروی کا عہد کیا ۔ پاکستان ایک ناکام ریاست قرار دیے جانے کے قریب تھا۔

روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردحملے ہورہے تھے،چنانچہ 2008ء کی پی پی پی حکومت کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ یہ آصف علی زرداری کا عزم تھاکہ تمام سیاسی افراتفری، قدرتی آفات اور دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود اُنھوں نے فوجی آمر، جنرل مشرف کو کسی خونریزی، داخلی فساد یا تادیب کے بغیر منصب چھوڑ نے پر مجبورکرتے ہوئے اپنی مرحوم بیگم کے جمہوری تصورات کو زندہ رکھا۔

محترمہ نے انہی تصورات کے اپنی جان کی قربانی دی تھی ۔ صدر ِ پاکستان کا منصب سنبھالنے کے بعد اُنھوں نے سب سے پہلے صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کے حوالے کرکے اس کی جمہوری بالا دستی بحال کی۔ سابق آمروں نے اختیارات پر قبضہ کرکے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کئی ایک منتخب شدہ حکومتوں کو معطل کیا تھا۔

زرداری صاحب پہلے صدر تھے جنہوں نے پارلیمان کو مضبوط کیا۔ اُن کی حکومت مفاہمتوں اور سمجھوتوں کی بنیاد پر وجود میں آنے والی مخلوط حکومت تھی، لیکن اس کے باوجود اُنھوں نے بے سہارا ،غریب اور کم آمدنی والی خواتین کی کفالت کے لیے ’’ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ‘‘ جیسے عظیم فلاحی پروگرام کو عملی شکل دی۔

آصف علی زرداری نے آئین ِ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم شامل کی جس نے زیادہ صوبائی خود مختاری، اور صوبوں کو مساوی وسائل کی تقسیم ممکن بنا دی۔

اُن کا دور عالمی کسادبازاری اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عروج کا زمانہ تھا۔ اُن کے نامزد کردہ گورنر پنجاب کے علاوہ اُن کے وزیر برائے اقلیتی امور کو قتل کردیاگیا۔ خطرات معمولی نہ تھے ۔ اُن کی حکومت گویا تنی ہوئی رسی پر چل رہی تھی، اور اُن کے سامنے یہ تلخ تاریخی حقیقت بھی موجود تھی کہ اس سے پہلے پاکستان میں کوئی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت مکمل نہیں کرپائی تھی ۔

2013 ء کے انتخابات پر سنگین تحفظا ت ، اور پی پی پی کو سیاسی سرگرمیوں کا موقع نہ دینے باوجود پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدر آصف علی زرداری نے ایک منتخب شدہ حکومت سے دوسری منتخب شدہ حکومت کی طرف جمہوری انتقال ِ اقتدار ہونے دیا۔

یہ عمل پاکستان میں جمہوری ارتقاء کا انتہائی اہم مرحلہ تھا۔2018 ء کے انتخابات سے پہلے پاکستان میں ماضی کےسائے منڈلانے لگے۔ اس مرتبہ صورت گر نے عمران خان کی شکل میں مہرہ آگے بڑھایا۔ اُنھوں نے انتخابی مہم کی بنیاد دروغ گوئی، عیاری اور بے بنیاد دعووں پر رکھی۔ کہا کہ وہ بدعنوان سیاست دانوں کے بیرونی ممالک میں چھپائے گئے 200 بلین ڈالر واپس لاکر ملک کو خوشحال کردیں گے ۔

اس دوران بہت مہارت اور منظم طریقے سے سیاسی افراتفری پھیلائی گئی ، سیاسی سرگرمیوں کا محور پالیسی کی بجائے ایک شخصیت بنا دیا گیا، گزشتہ دس سال تک حکومت کرنے والے سیاست دانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی، نوجوانوں کے ذہن میں قطبی رویے پالے گئے اور مذہبی جنونیت کو ہوا دی گئی۔ انتخابی مہم کا نعرہ تھا کہ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ سابق حکمرانوں کی بدعنوانی ہے۔ عمران خان نے بہت کھلے الفاظ میں 60 ء کی دہائی، اور 2000 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں قائم حکومتوں کی تعریف کی، اور اُنہیں ملک کے بہترین ادوار قرار دیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی بلاروک ٹوک جمہوری ادوار نہیں دیکھے ہیں، اور نہ ہی یہاں جمہوریت کو پروان چڑھنے کا موقع دیا گیا ۔ عمران خان نے اپنی تمام مہم کے دوران دراصل سولین حکومت کے خلاف نفرت کی فضا قائم کی۔

وہ اسے بے کار سرگرمی قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں نہیں آتے تھے ۔ وزیرِاعظم ہائوس کو اس طرح برا بھلا کہتے جیسے یہ زرداری یا شریف کی ذاتی جائیداد ہو۔ اس پروپیگنڈا پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی، اور اسے بھرپور مہم چلا کر عوام کے ذہنوں میں اتارا گیا۔ اس کا ایک نتیجہ آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی صورت سامنے آیا۔

2018 ء کے عام انتخابات سے چند ہفتے پہلے تمام میڈیا چینلوں پر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کی مہم جنونی انداز میں چلائی گئی ۔ اس کی ٹائمنگ ہیلری کلنٹن کے خلاف صدارتی انتخابات سے پہلے ای میل اسکینڈل کی یاد دلاتی ہے ۔

سات جون 2018ء کوایف آئی اے نے بنکوں کی کچھ نجی ترسیلات کی بابت ایک ایف آئی آر درج کی۔ ایف آئی اے نے نجف مرزا کو تفتیشی افسر مقرر کیا جس نے سابق دور میں زرداری پر تشدد کیا تھا۔اس سے بات واضح ہوچکی تھی کہ یہ سب ایک شخص کے خلاف ذاتی طور پر انتقامی کارروائی ہے ۔ آنے والے ہفتوں کے دوران آصف علی زرداری کے خلاف معاملات یکا یک کراچی کی بنک کورٹس سے نکل کر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ تک پہنچ گئے۔

فاضل عدالت جعلی بنک اکائونٹس پر تفتیش کی رفتار سے مطمئن نہ تھی۔ یہ ایک غیر معمولی قانونی پیش رفت تھی۔ سپریم کورٹ نے اسے ’’عوام کے بنیادی حقوق کامسئلہ‘‘ قرار دے کر اس پر آرٹیکل 184(3) کے تحت سووموتو نوٹس لے لیا۔

یہ بات ناقابل ِفہم ہے کہ کس طرح سست تفتیشی عمل نے سپریم کورٹ کو مداخلت کا جواز فراہم کردیا جبکہ شہید ذوالفقار علی بھٹو (1979)کے عدالتی قتل اور شہید بے نظیر بھٹو کے قتل کیس (2007) ابھی تک عشروں سے ہماری فاضل عدالتوں میں زیر ِ التواہیں۔

میں سمجھ سکتی ہوں کہ فاضل عدالت کی توجہ سے کچھ مقدمات کا جلد حل ہونے کا فائدہ ہوتا ہے ، لیکن یہ چیز پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہی تھی کہ ہماری عدالتیں من پسند انصاف کا بول بالا کررہی تھی۔ 9 جولائی 2018 ء کو سووموٹو نوٹس کے دس دن بعد سپریم کورٹ نے صدر زرداری اور اُن کی ہمشیرہ ، فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا۔

یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا آغاز تھا۔ کردار کشی کی اس تمام مہم کے باوجود آصف علی زرداری 26 جولائی 2018 ء کو انتخابات میں اپنے حلقے سے جیت گئے ۔ اُن کے اسلام آباد پہنچنے کے تصور سے بہت سی پیشانیاں شکن آلود ہوچکی تھیں۔

الیکشن کا دن جمہوریت کے نام پر ایک بدنما داغ، اور الیکشن ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ سکیورٹی اداروں کے اہل کار پولنگ بوتھ کی حفاظت سے لے کر ووٹوں کی گنتی کے دوران موجود رہے ۔ لیکن لوگوں نے اُنہیں ووٹ دیے ، اور وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوکر دوبارہ دارالحکومت میں پہنچ گئے ۔

جس صبح وزیر ِاعظم کے چنائو کے لیے اسمبلی کا اجلاس ہوا، آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ۔ پارلیمنٹ میں ووٹ ڈالنے کی بجائے اُنہیں ضمانت کرانے کے لیے عدالت کی طرف بھاگنا پڑا۔ ٹھیک اسی وقت ہمارے وزیر ِاعظم نے اپنی پہلی تقریر شروع کی ۔

تقریر براہ ِراست دھمکیوں سے لبریز تھی۔ وہ کھلے الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ وہ گزشتہ دس سال سے حکومت کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال دیں گے۔ جو کچھ اُنھوں نے کہا تھا، کر دکھایا۔ آنے والے مہینوں میں پی ٹی آئی کے کئی ایک وزراء نے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس ثاقب نثار سے نجی ملاقاتیں کیں۔

حکومت نے ڈیم بنانے کے لیے جسٹس ثاقب نثار کی عطیات جمع کرنے کی مہم کی حمایت کی ۔ اُنھوں نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیاجو ماورائے آئین اختیارات رکھتی تھی۔ اور اس نے بنکوں کے لین دین میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کرنی تھیںتاکہ آصف علی زرداری پر جرم ثابت کیا جاسکے ۔ یقینا یہ دھشت گردی کو فنڈز دینے، یا قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے کا کیس نہیں تھا۔ محض پراپیگنڈے کے زور پر تمام معاملہ اچھالا گیا۔

پاکستان کے عوام کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ پی ٹی آئی حکومت چلانے کے لیے کتنی تیا ر ہے، یا اس کی کیا صلاحیت ہے۔ اس کے سامنے اگر کوئی تصور تھا تو وہ انتہائی بے سروپا تھا۔ عوامی زبان میں کہیں تو اُنھوں نے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا۔

ابہام اور دوغلے پن کا شکار حکومت کو احساس ہوگیا کہ ملک چلانا تو اس کے بس سے باہر ہے ۔ چنانچہ اُنھوں فسطائی رویہ اپناتے ہوئے جابرانہ ہتھکنڈے اپنانے اور اپوزیشن کی کردار کشی، الزام تراشی اور دھمکیوں کو اپنا وتیرہ بنالیاتاکہ عوام کی توجہ اُن کی نااہلی پر نہ جائے ۔

اس دوران وہ عوام کے حقوق اور پریس کی آزادی کو دبانا شروع ہوگئے ۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران پی ٹی آئی کے وزیر ِاطلاعات قومی ٹی وی پر مسلسل قانونی اقدامات کے بارے میں قبل از وقت قوم کو بتاتے رہے۔

ملی بھگت کو اُنھوں نے راز رکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی ۔ آصف علی زرداری نے جو کچھ اپنے دور میں کیا تھا، وہ اُسے برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔ اُن کا ایک ہدف سندھ میں پی پی پی کی صوبائی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنا بھی تھا۔ اس لیے اُنھوں نے اٹھارویں ترمیم میں خرابیاں تلا ش کرنا شروع کردیں، صوبوں کو دیے جانے والے فنڈز پر سوالات اٹھانے لگے،اور اس بحث کے ساتھ بہت منظم طریقے سے سندھ کابینہ کے وزرا کی بدعنوانی کا چرچا بھی کیا جانے لگا۔

سندھ اسمبلی کےا سپیکر کو کسی تفتیش یا تحقیق کے بغیر، ایک مبہم سے الزام میں اچانک گرفتار کرلیا گیا کہ وہ اپنے اعلانیہ وسائل سے بڑھ کر زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ آج بھی اُن کی تحویل میں ہیں۔ ستائیس دسمبر 2018ء کو پی ٹی آئی نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ میں اپنی حکومت بنانے کا ارداہ ظاہر کیا۔

چند گھنٹوں کے بعد پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری سمیت پی پی پی سندھ کے تمام منتخب شدہ نمائندوں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے گئے ۔ ایسا کرنے کا اُن کے پاس ذرہ برابر قانونی جواز نہ تھا۔ یہ اُس پارٹی کی طرف سے کھلی آمریت، اور فسطائی پن کا واضح مظاہرہ تھاجس کا نعرہ ہی یہ تھا کہ وہ اپوزیشن رہنمائوں کو جیلوں میں ڈال دیں گے۔

سات جنوری 2019ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جے آئی ٹی کی تحقیقات نیب ، راولپنڈی کے حوالے کردیں ، اور اُسے تحقیقات کا حکم دیا۔ یہ اقدام نہ صرف بلا جواز تھا بلکہ اس سے صوبائی اختیارات پر بھی زد پڑتی تھی اور پھر نیب بذات ِخود انتہائی متنازعہ ادارہ بن چکا ہے ۔

نیب کو فوجی آمر، جنرل مشرف نے تحقیقات کرنے والے ایک ادارے کے طور پر قائم کیا تھا(مشرف بذات ِ خود عدالتوں سے مفرور ، اور سوئس بنک اکائونٹس اور بیرونی ممالک میں جائیدادیں رکھنے پر مطلوب ہیں)۔ اُنھوں نے سیاست دانوں کو دھمکانے، اور منتخب شدہ حکومتوں کو کمزور کرنے اور گرانے کے لیے اسے ایک ہتھیار کی طرح استعمال کیا ۔ اُنہیں اپنے لامحدود اختیارات پر ناز تھا ۔

لیکن اُن سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی ۔ جون 2019 ء تک آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی اور نیب کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ لیکن پھر طاقت کا پررعونت مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہیں گرفتا کرلیا گیا ۔دس جون سے اب تک وہ نیب کی حراست میں ہیں۔

نیب حکام نے تیرہ جون کو راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایک طبی معائنے کا اہتمام کیاتا کہ اُن کی گرتی ہوئی صحت کی وجہ معلوم کی جاسکے ۔ آصف علی زرداری گیارہ سال کی بلاجواز حراست اور تشدد کی وجہ سے بہت سی جسمانی بیماریوں کو شکار ہیں۔

پروفیسر میجر جنرل اظہر محمود کیانی کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق دل کی تین شریانیں بند ہیں، اُن کی بلڈ شوگر بھی قابو میں نہیں۔ ہر روز اس کا لیول بگڑ جاتا ہے ۔ اس کے باوجود عدالت نے 16 اگست 2019ء کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔ وہ تاحال اڈیالہ جیل کے بی کلاس 12x12 کمرے میں مکمل طور پر قید ِ تنہائی گزار رہے ہیں۔

عدالت میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ کیا اُن کے سیل میں اے سی کی سہولت ہونی چاہیے کہ نہیں؟ تاہم اُن کے اہل ِخانہ اور وکلا کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں، جو کہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ پاکستان کے سابق صدر ہونے کے علاوہ وہ قانون کی پابندی کرنے والے شہری ہیں۔ مقدمے سے بھی پہلے اُن کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک نہ صرف غیر قانونی ہے ، بلکہ اُنہیں جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی مجرمانہ کوشش بھی ہے۔

انتیس اگست کو میڈیا نے ایک خبر نشر کی کہ اُنہیں آدھی رات کو جیل سے امراض ِقلب کے اہسپتال لے جایا گیا ہے ۔ اگلی صبح میری بہن، آصفہ اُن سے ملنے اہسپتال پہنچی ۔ وہ بیمار والد کی بمشکل ایک جھلک ہی دیکھ پائی ، لیکن اُسے اُن سے ملنے نہ دیا گیا۔ اگرچہ اُس کے ہاتھ میں عدالت کا حکم نامہ تھا، اور اُس نے دکھایا بھی لیکن گیٹ پر موجود پولیس والوں نے اُسے روک لیا، اور اندرنہ جانے دیا۔ اہسپتال کے دروازے بند کردیے گئے ، حتیٰ کہ عام مریضوں کو بھی اندر جانے ، یا باہر آنے کی اجازت نہ دی گئی ۔

میں ایک مرتبہ پھر دہراتی ہوں کہ وہ کوئی دہشت گرد یا ریاست پر حملہ آور پائلٹ نہیں، سابق صدر ِ پاکستان ہیں۔ اس وقت تک اُن پر باضابطہ طو رپر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ہے ۔ ریفرنس زیر التوا ضرور ہیں، لیکن مقدمے کی کارروائی ابھی شروع نہیں ہوئی ۔ مکمل چیک اپ کیے بغیر اُنہیں اُسی روز واپس اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ اہسپتال لے جانے کا کوئی ریکارڈ ہمارے ، یا وکلا کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا ۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب عدالت کا حکم نامہ اس شرمناک طریقے سے مسترد کردیا گیا ہو۔ ہم نے عید پر ملاقات کی اجازت بھی لی تھی ، لیکن ہمیں ملنے نہ دیا گیا، حالانکہ یہ رعایت قیدیوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہے ۔ میںیہ واقعات اس لیے بیان کررہی ہوں کہ تاکہ قارئین جان سکیں کہ پاکستان میں کس حماقت بھری رعونت کا راج ہے ۔آج ایک اہم منصب پر وہی شخص فائز ہے جو مشرف دور میں بھی اس منصب پر فائز تھا۔

ان پر میری والدہ کے قتل میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔وہ اب میرے والد کے علاج کے نگرا ں بھی ہیں۔یہ فسطائی حکومت اُن کی جان لینے کے درپے ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے کبھی بھی تحقیقات کا سامنا کرنے پر اعتراض نہیں کیا۔ درحقیقت وہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تحقیقات کا سامنا کرنے ، تفتیشی عمل سے گزرنے، اور تشدد کا نشانہ بننے والے شخص ہیں۔

جھوٹے الزامات کی وجہ سے زندگی کے گیارہ سال جیل میں گزارنے والے شخص کا کوئی جرم ثابت کیا جاسکا، اور نہ سزا دی جاسکی ۔ اب وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔

یہ وہی شہر ہے جہاں 2007 ء میں میری والدہ کو قتل کیا گیا تھا۔ میرے نانا کو ’’عوام کو طاقت ور بنانے ‘‘ کے جرم میں تختہ ٔ دار پر چڑھا دیا گیا۔ میری والدہ جلاوطنی کے بعد پاکستان میں جمہوریت بحال کرنے واپس آئی تھیں لیکن اُن کی جان لے لی گئی۔ اُن کا کہنا تھا، ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘۔ میرے والد نے بھی ’’جیے بھٹو ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔

اُن کا جرم یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے پاکستان میں جمہوری عمل جاری رکھنے میں اپنا کردار ا داکیا ۔ اب اُنہیں ذہنی اور جسمانی طور پر تباہ کرنے کے منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے ، لیکن وہ طاقت ور کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار نہیں۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ وہ کس بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں۔ لیکن ابھی فیصلہ کن لمحہ آنا باقی ہے۔