سندھ بدامنی کی لپیٹ میں سیاسی دباؤ پولیس کی کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ ہے

September 22, 2019

آئی جی سندھ، سید کلیم امام

کسی بھی معاشرے میں جرائم کی روک تھام یقینی بناکر امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں پولیس کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ پولیس ہی ہوتی ہے جو کہ جرائم پیشہ عناصر کو قانون کی گرفت میں لاکر قرار واقعی سزا دلواتی ہے اور معاشرے میں امن و امان کی فضاء کو برقرار رکھتی ہے۔ کسی معاشرے میں اگر پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی سے منہ موڑ لے تو پھر وہاں لاقانونیت کا راج قائم ہوجاتا ہے اور وہ معاشرے پستی کی جانب گامزن ہوجاتے ہیں۔ سندھ میں سابقہ دور میں محکمہ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ثمرات زائل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

ڈاکوؤں، جرائم پیشہ عناصر کے گرد گرفت ڈھیلی پڑنے سے ڈاکو راج پھر سر اٹھانے لگا۔ سکھر سمیت سندھ کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح نے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات لگادئیے ہیں۔ اغوا برائے تاوان، ہائی وے پر لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، رہزنی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں سندھ پولیس کی ناقص کارکردگی کو عیاں کررہی ہے۔ آئی جی سندھ سید کلیم امام کی جانب سے ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات دکھائی نہیں دیتے جبکہ عوام اور پولیس کے درمیان دوریاں مٹانے کے لئے مختلف پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ مگر جب امن و امان کی فضاء ہی ناسازگار ہوگی تو پھر عوام اور پولیس کے درمیان دوریاں کیسے ختم کی جاسکتی ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئی جی سندھ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک سید کلیم امام کی جانب سے عوام کے درمیان پولیس کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ اس سلسلے میںان کے احکامات پر ایس ایس پیز کی جانب سے کبھی اسکولز کے بچوں میں ٹافیاں، قلم، کتابیں تقسیم کی گئیں تو کبھی لاک اپ میں لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا۔ شہریوں کی سہولت کے لئے خراب ہونے والی گاڑیوں کی مرمت اور پنکچر لگانے کے لئے خصوصی گاڑیاں بھی تیار کی گئیں، خواتین پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کے لئے خواتین کی قانونی امداد کی گئیں۔ان کے تحفظ کے لیےسیمینار منعقد کرنے، ریلیاں نکالنے سمیت دیگر اقدامات کئے گئے جو کہ بلاشبہ احسن اقدامات ہیں ۔محکمہ پولیس میں آئی جی سندھ کے انقلابی اقدامات کے باوجود جرائم پیشۃ عناصر دوبارہ بے لگام ہوگئے ہیں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں دوبارہ شروع ہوگئی ہیں۔، قومی شاہراہ بالخصوص لنک روڈز پرعوام کا سفر غیر محفوظہ ہوگیا ہے۔ لوٹ مار کے واقعات میں تیزی آگئی ہے،کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے گروہ دوبارہ منظم ہوگئے ہیں اور اغوابرائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

شکارپور کے شاہ بیلو کے کچے کے جنگلات میں پولیس ڈاکوؤں کے خلاف کوئی بھی کامیاب آپریشن نہیں کرسکی ہے۔خود پولیس افسران کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کے پاس پولیس کی بہ نسبت زیادہ جدید ہتھیار ہیں، جن کی وجہ سے پولیس کو ناکامیوں کا سامنا ہے۔ چند ماہ کے دوران شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے ڈی ایس پی، ایس ایچ او سمیت 5 پولیس اہلکاروں کو شہید کیا جب کہ پولیس تاحال کسی بھی بڑے ڈاکو کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لاسکی ہے۔ حالانکہ اسی کچے کے علاقے میں چند سال قبل ڈاکوؤںکےخلاف بھرپور آپریشن کئےگئے تھے اور ان علاقوں سے ڈاکوؤں کا بڑی حد تک صفایا ہوگیا تھا۔ مگر اب ان علاقوں میں ڈاکو ایک بار پھر منظم ہورہے ہیں، کچے کے ان علاقوں میں ڈاکوؤں کے منظم ہونے سے شہری علاقوں میں بھی جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ شہر کے اہم رہائشی و تجارتی علاقوں میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں بھی بڑھ گئی ہیں، موبائل فونز، موٹر سائیکلیں چوری اور چھیننے سمیت گھروں میں ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتیں بھی عام ہیں جبکہ منشیات فروش بھی کھلے عام منشیات کی خرید و فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے اپنی تعیناتی سے لے کر تبادلے تک پولیس کا مورال بہتر بنانے کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں، اسےجدید خطوط پر آراستہ کرنا، تھانہ کلچر کی تبدیلی، پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرانا، روپوش و اشتہاری ملزمان کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کرنے، آن لائن رپورٹنگ سینٹرز اور جدید طرز کے ویمن ہیلپ سینٹرز کا قیام عمل میں لانا ان کے نمایاں کارنامے تھے۔ ان کے دور میںمحکمہ پولیس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے موثر اقدامات کیے گئے۔ اے ڈی خواجہ کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے کیرئیر میں کبھی بھی سیاسی مداخلت اور دباؤ کو برداشت نہیں کیا اور میرٹ کی بنیاد پر معاملات کو انجام دیا۔ ان کے دور میں پولیس میں واٹس ایپ گروپ متعارف کرایا گیا۔ سندھ کے تمام اضلاع کے ایس ایس پیز کی جانب سے واٹس ایپ گروپ بنائے گئے اور تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا۔

ایف آئی آر کے اندراج کے بعد بالا افسران فوری طور پر اسےچیک کرسکتے تھے ،اس طرح چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم بھی بہتر ہوا۔ اے ڈی خواجہ کی کاوشوں کی بدولت سندھ بھر میں تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے، امن و امان کی فضاء بہتر بنانے بالخصوص روپوش و اشتہاری ملزمان کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کرنے کے اقدامات سے پولیس کا مورال بلند سے بلند تر ہواتھا۔ان کی تعیناتی سے قبل، سندھ کے متعدد اضلاع میں پولیس وڈیروں اور بااثر شخصیات کے زیر اثرتھی اورسیاسی دباؤ کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتی تھی۔ انہوں نے اس کلچر کو تبدیل کرکے سندھ پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرایا جس کی وجہ سے پولیس نے ڈاکوؤں اور جرائم و سماج دشمن عناصرکے خلاف فقیدالمثال کامیابیاں حاصل کیں۔ دو سال کے مختصر عرصے میں انہوں نے سندھ پولیس کی نہ صرف کارکردگی بلکہ تھانہ کلچر کوبھی نمایاں طور پر بہتر بنایا۔

سکھر کے شہری، سماجی و تجارتی حلقوں نے امن و امان کی فضاء خراب ہونے، ڈاکوؤں کے دوبارہ سر اٹھانے اور جرائم کی شرح میں اضافے پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ آئی جی سندھ سید کلیم امام کی جانب سے پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لئے جو اقدامات کئے جارہے ہیں وہ بلاشبہ قابل ستائش ہیں، وہ صوبے میں جرائم کی بیخ کنی کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ ان کے اقدامات کے باعث شہریوں کو ریلیف بھی مل رہا ہے مگر اس کے کے باوجود سندھ کا خطہ بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ انہوں نے آئی جی سندھ سے اپیل کی کہ وہ پولیس کی ترجیحات پر نظر ثانی کریں اوربدامنی کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک موثر پالیسی تشکیل دی جائے جس کے تحت ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کا مکمل قلع قمع کیا جاسکے۔ اس وقت کچے کے علاقے میںجدید اور بھاری ہتھیاروں سے لیس ڈاکوؤں کےمقابلے میں پولیس کو مسلسل ناکامیوں اور جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کو سیاسی دباؤ اور بااثر شخصیات کی مداخلت سے آزاد کراکے، ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ازسرنو حکمت عملی مرتب کی جائے۔ پولیس کو جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس کر کےڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے مکمل خاتمے تک بھرپور آپریشن کیا جائے تاکہ صوبے میں امن و امان کی فضا بحال ہوسکے۔