ساون کی گھٹائیں کیا کہہ رہی ہیں

September 29, 2019

محکمہ موسمیات نے کراچی میںگرج چمک کے ساتھ تیز بارش کی پیش گوئی کر رکھی تھی، پیشگوئی کے مطابق بادل تو آئے، کالی گھٹائیں بھی آ گئیں، تیز بارش کی جگہ بوندا باندی ہو رہی ہے، کہیں دور سے ہوا کےدوش پر گانے کی آواز آ رہی ہے۔

اماں میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا، موسم کے زیر اثر گانے کے بولوں نے ہمیں اپنی بہن کی یاد دلا دی۔ موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے بہن سے ملنے نکل پڑے۔ ابھی مرکزی شاہراہ پر پہنچے ہی تھے کہ ٹریفک جام میں پھنس کر رہ گئے۔ گھنٹہ گزر گیا، ٹریفک ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اللہ اللہ کرکے ٹریفک چلنا شروع ہوئی تب تک بارش سے لطف اندوز ہونے کا خیال بھی ہوا ہو چکا تھا۔ اب گھر پہنچنے کی فکر ہوئی، گزشتہ دنوں ہونے والی بارش کا پانی اب تک نکاسی کو ترس رہا تھا کہ مزید بارش سے پانی اور جمع ہوگیا۔ کراچی کا کوئی پرسانِ حال نہیں، بلدیاتی کارکنان کی لاپروائی، لاتعلقی کے سبب بارش کو اللہ کی رحمت کے بجائے زحمت بنا دیا ہے جو بدحالی کراچی کی سڑکوں کی ہے، اس سے بدتر حالت یہاں کے تفریحی مقامات کی ہے۔ محلوں کے پارکوں کا تو صرف نشان ہی باقی رہ گیا ہے۔ مرکزئی تفریح گاہوں کا بھی کچھ اچھا حال نہیں۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بلدیاتی نمائندگان صوبائی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں اور صوبائی حکومت بلدیاتی نمائندوں کو قصوروار ٹھہرا رہی ہے۔

کراچی کے رہنے والے طرح طرح کے عذابوں کو برداشت کر رہے ہیں، پینے کو صاف پانی میسر نہیں ہے، صحت و صفائی کا نظام درہم برہم ہے، فراہمی آب کی طرح نکاسی آب کا کوئی درست نظام نہیں، جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں، سڑکوں پر گٹر کے پانی نے بارش کے پانی کوبھی اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے، کراچی میں جگہ جگہ پھیلے کچرے کو بارش کے پانی نے مزید تعفن زدہ کر دیا ہے۔ گو کہ وزیراعلیٰ کےحکم پر کچرا اٹھانے کا بندوبست تو کیا جا رہا ہے، مگر وہ اتنا سست رفتار ہے کہ روزانہ جتنا کوڑا اُٹھایا جاتا ہے اس سے زیادہ اس جگہ آ جاتا ہے جو گلی محلوں کا روز کے روز بننے والا کچرا ہوتا ہے۔ جب سے وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی صفائی مہم سنبھالی ہے تو ان کے بقول گٹروں میں پتھر، ریت سے بھری بوریاں ملی ہیں جو حکومت کےمخالفین نے کراچی کو گندا اور برباد کرنے کی سازش سے پھینکی ہیں۔ گندے پانی کی نکاسی نہ ہونے اور گندا پانی سڑکوں پر آ جانے کے باعث سڑکوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ دراصل سندھ حکومت کو فیل کرنے اور وفاق کو کراچی میں مداخلت کرانے کے لئے اس طرح کی سازش کی گئی۔ اب بھی سندھ حکومت کے ترجمان کے مطابق انہیں پوری طرح کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔ مرکزی حکومت اپنے حامی اور نمائندوں کے ساتھ مقامی بلدیاتی انتظامیہ سے مل کر صفائی کے کاموں میں اور اس سے متعلق دوسرے کاموں میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے لیبر پر اثر انداز ہو رہی ہے جس سے کام سست رفتاری کا شکار ہے۔

کراچی بلدیہ اور حکومت سندھ کی رسہ کشی کی باعث کچرا کنڈی بن کر رہ گیا ہے کیونکہ کراچی کے اقتدار کی ہانڈی میں کئی حصہ دار ہو گئے ہیں، ایم کیو ایم جو کسی حد تک تقریباً پورے کراچی پر مقتدر رہ چکی ہے، اب اُس کی بدقسمتی یا بدانتظامی اور اندرونِ خانہ ٹوٹ پھوٹ کے باعث اس بار الیکشن میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی جو وہ حاصل کرتی رہی ہے۔ اب کراچی میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور دوسرے بھی شریک ہو چکے ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ نہ خود کام کر رہے ہیں، نہ ہی کسی کو کام کرنے دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے خوشحال کراچی بدحال کراچی بن چکا ہے۔ کسی کو بھی اس کی فکر نہیں ہے، سب کو اپنے مفادات اور نام و نمود کی فکر ہے۔ کچھ عرصہ بعد بلدیاتی انتخابات ہونے کو ہیں، کیا ان تمام سیاسی جماعتوں نے کراچی کے ووٹرز کو اتنا نااہل سمجھ رکھا ہے کہ وہ پھر آنکھوں دیکھی مکھی نگل لیں گے۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی، کراچی کے ساتھ سب کا کیا دھرا سامنے آرہا ہے، کوئی دودھ کا دھلا نہیں گو کہ سب ہی کراچی کی لنکا میں باون گز کے ہیں، کراچی والوں کو خوف لے بیٹھا ہے۔ طرح طرح کے خوف کی فضا کراچی پر طاری کر دی گئی ہے، تمام سیاسی جماعتیں کراچی کو قابو کرنا چاہتی ہیں۔ بات ہو رہی تھی بلدیاتی ادارے اپنی نااہلی یا سیاسی مخالفت کا ملبہ بارش پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ سڑکوں کو آپ نے کھودا، گٹر آپ نے بند کئے، جگہ جگہ ترقیاتی کاموں کے نام پر راستے آپ نے بند کیے، الزام بارش پر، ایک تو کراچی میں اللہ اللہ کر کے کبھی کبھار بارش ہوتی ہے، اسے بھی مصیبت بنا دیا جاتا ہے۔ اللہ ہمارے دل و دماغ کو درست رکھے اور اپنی ذات سے بڑھ کر اپنے شہر کراچی سے محبت و خلوص کی توفیق دے۔ آمین!