سررہ گزر

October 06, 2019

نرخ چیک کرنے والے کہاں ہیں؟

ہم مہنگائی کی تفصیلات پر مبنی خبروں کا احاطہ کرنے سے تو رہے، ہاں اتنا ضرور پنجاب کے کسٹوڈین سے عرض کریں گے کہ آپ کی ناک کے نیچے جو لاہور واقع ہے اس میں ایک تو حکومت کے عطا کردہ نرخنامے ہیں، اُن نرخناموں کو پوچھنے والے مجسٹریٹوں کے غول کہاں ہیں جو ہر دکاندار نے اپنے طور پر ایجاد کر رکھے ہیں، گویا مہنگائی کنٹرول کرنے کی آڑ میں مہنگائی پھل پھول رہی ہے، خریداروں کی آمدن مقررہ ہوتی ہے انہیں مجبوراً دکاندار کے ہاتھ پر بیعت کرنا پڑتی ہے، مرغی بیچنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں کہ وہ مردِ بیمار کو مرغِ بیمار کیوں کھلاتے ہیں؟ عام آدمی ووٹ اس لئے دیتا ہے کہ شاید اس کی گزر بسر کچھ آسان ہو، اس کو اعداد و شمار سے کیا لینا، اگر رموزِ حکمرانی سے اتنی بے خبری تھی، تو اپنے سیاسی کیریئر میں کیا سیکھتے رہے، یہ کیسی بہتری ہے کہ گزشتہ ابتری کی یاد ستانے لگی ہے، ہم اخبار نویسوں سے بھی تو کوئی حال چال پوچھے کہ پچھلے دورِ حکومت میں اخبار کی اتنی استطاعت تھی کہ ہمیں مزدوری باقاعدگی سے مل جاتی تھی جب سے یہ تبدیلی سرکار آئی ہے معاوضے کو ترس گئے ہیں کہ اخبار ڈوب رہے ہیں، میڈیا کو آزادی سے محروم کرنے کی سوچنے والے اسے معاشی آزادی تو دیں، اخبارات اشتہارات سے چلتے ہیں، ناچار اپنا حجم کم کرنے پر مجبور ہو گئے، اخباری صنعت کو حکومت تگڑا سہارا دے کہ یہ میڈیا ہی ہے جو اچھائی برائی کو ہر اچھے برے تک پہنچاتے ہیں، میڈیا خاموش ہو گیا تو یہ فضول کی آنیاں جانیاں بھی فضول جائیں گی، بہرحال بات ہے مہنگائی کی اور اکثریت اس کی زد میں ہے۔ وہی اکثریت جس نے مہنگائی در مہنگائی کرنے والوں کو اقتدار سونپا، یہ کیسی مہنگی جمہوریت ہے؟

٭٭٭٭

محلہ گولی ماراں

نجانے کس جنم میں کیا خطا ہوئی کہ لاہور میں کینال پر موجود ایک اسکیم میں گھر بنا لیا، جونہی سانولی شام سیاہ فام ہوتی ہے میرے گھر کے آس پاس ممنوعہ بور کے دہانے کھل جاتے ہیں لگتا پورا شہر پولیس مقابلے کی زد میں جبکہ پولیس ہربنس پورہ تھانے میں آسودہ ہوتی ہے، یہ چند گھر ہیں جن کی اونچی چھتوں سے فائرنگ شروع ہوتی ہے، بچے مائوں کی گود میں جاگ جاتے ہیں یوں لگتا ہے کہ ہمارا محلہ بھی مقبوضہ کشمیر بن گیا ہے، ایک خوف و ہراس پھیل جاتا ہے، کوئی باہر صحن میں نہیں نکلتا کہ کوئی آوارہ گولی لگ نہ جائے، ہم نے اگرچہ کئی بار لکھا ہے یہ منظر نامہ تاہم ایک بار پھر گزارش ہے کہ اگر اس شہر میں سی ایم بھی رہتے ہیں تو اس علاقے کے تھانے اور ڈولفن کو ہدایات جاری کریں کہ اس بستی کی بھی خبر لیں جہاں بھینس اور انسان ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں، میری دیوار کے ساتھ ہی ایک بدمعاش گوالے نے خالی پلاٹ میں بھینسیں اور کئی دیگر جانور باندھ رکھے ہیں، میں اپنے لان میں بدبو کے مارے بیٹھ نہیں سکتا، اخلاقی انسانی حوالے استعمال کئے مگر میں گوبر اور غلاظت کے محاصرے کو توڑ نہ سکا، یہ آواز صرف میری نہیں سینکڑوں مکینوں کی ہے جو کہتے ہیں یار تم ہی یہاں کے مسائل بارے کچھ لکھو، گویا یہ شکایت نامہ بڑے زوروں سے لکھوایا گیا ہے، اب اگر اس کو انتظامیہ ’’منوایا گیا ہے‘‘ بنا دے تو عنایت ہو گی، ایک ڈینگی ٹیم آئی، اسے دکھایا کہ یہ بھینسیں دیکھو یہ گوبر کے ڈھیر دیکھو کیا کانگو وائرس ڈینگی سے زیادہ خطرناک نہیں، انہیں خالی پلاٹوں میں پانی کے جوہڑ دکھائے جہاں سے مچھر پورے شہر کو سپلائی ہوتے ہیں، مگر وہ تو بضد تھے کہ ہم نے گملے چیک کرنے ہیں کہیں ان میں پانی تو نہیں کھڑا ہوا۔ اس کالونی ہی کو نہیں پورے شہر کو مویشیوں سے خالی کرایا جائے، اور ہر رات کو سرشام ٹھاہ ٹھاہ بھی بند کرائی جائے کہ کم از کم کانوں کے پردے تو محفوظ رہیں۔

٭٭٭٭

حاضر سروس کی کمی

....Oبلاول بھٹو:مولانا کے ساتھ ہیں، اشارے کا شک ہوا تو حمایت واپس لے لیں گے۔

ایک اشارے پہ ہو موقوف جس کی حمایت

ایسے حمایتی سے تو خلع لینی چاہئے

....Oکھوکھلے الزامات، نیب نے ریٹائرڈ سیکرٹری کو بھی دھر لیا۔

حاضر سروس کی کمی ہو گئی ہو گی۔

....O موسم سرما میں گیس لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا پلان تیار، بھاری سبسڈی درکار ہو گی۔

زور کس پر ہوا بھاری سبسڈی کی فراہمی پر، اس پلان میں کہیں کوئی یو ٹرن تو پوشیدہ نہیں۔