بابری مسجد کیس، فیصلے سے قبل ایودھیا میں دفعہ 144 نافذ

October 14, 2019

بھارتی ریاست اتر پردیش (یوپی) کے ضلع (فیض آباد) ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کیس کے فیصلے سے قبل دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹمیں بابری مسجد کیس کی سماعت چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ کررہا ہے۔

کیس کی سماعت کا یہ آخری ہفتہ ہے، توقع کی جارہی ہے کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے قبل بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنادیا جائے، جن کے عہدے کی مدت 17 نومبر کو مکمل ہو رہی ہے۔

مسلمانوں کی طرف سے سینئر ایڈووکیٹ راجیو دھون نے دلائل دیے اور کہا کہ کیا وجہ ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران صرف مسلمانوں سے ہی سوال کیے جارہے ہیں اور مخالف ہندو فریق سے کچھ نہیں پوچھا گیا۔

اس سوال کو بینچ کے رکن جج نے غیرضروری قرار دیا اور انہیں احتیاط کی ہدایت کی۔

سماعت کے دوران ایڈوکیٹ راجیو دھون نے دلائل دیے کہ متنازع بنائی گئی زمین ہمیشہ مسلمانوں کے پاس رہی ہے، 1989 سے پہلے ہندو فریق نے کبھی زمین کے مالکانہ حقوق کا دعویٰ نہیں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو اس زمین کی گرانٹ بھی ملی جو یہ ثابت کرتی ہے کہ زمین کے مالکانہ حقوق مسلمانوں کے پاس ہیں اور 1992 میں بابری مسجد پر ناجائز قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

دوسری طرف بابری مسجد کیس کے متوقع فیصلے سے کئی ہفتے قبل ہی سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ضلع ایودھیا میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے، جو 10 دسمبر تک برقرار رہے گی۔

بابری مسجد 1528 میں مغل دور حکومت کے دوران ایودھیا شہر میں تعمیر کی گئی، جس کے بارے میں ہندو کا دعویٰ ہے کہ اس مقام پر ان کے بھگوان ’رام‘ کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔

1992ء میں بھارتی وزیراعظم نرسیمہا راؤ کے دور حکومت میں پورے بھارت سے ہندو بڑی تعداد میں جمع ہوئے، جنہوں نے ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو بابری مسجد شہید کردی تھی۔