سازش کون اور کیوں کررہا ہے

February 19, 2013

سازش تھیوری تو یہی بنتی ہے کہ کوئٹہ میں قتل و غارت گری کا دوسرا بڑا واقعہ انتخابات ملتوی کرنے کی سازش ہے مگر اس طرح کی سازشی کہانیاں گھڑنے والے سفاک،سنگدل اور بے رحم لوگوں نے کبھی سوچا کہ قومی خزانے پر پلنے والے صوبائی و قومی حکمرانوں، گورنر راج نافذ کرکے جملہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے والی وفاقی حکومت کی بھی کوئی ذمہ داری ہے یا اس کا کام صرف کراچی اور لاہور کے بلاول ہاؤس میں جوڑ توڑ، جاتے اقتدار کی بہاریں لوٹنے کے لئے غیر ملکی دورے اور اتحادیوں کے ناز نخرے اٹھا کر اسمبلیوں کی مدت پوراکرانا ہے؟ ہزارہ ٹاؤن ہی کیا پورے ملک کے عوام جائیں بھاڑ میں؟
صرف وفاقی حکومت پر کیا موقوف پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں اور ان کے علاوہ صوبوں کے اقتدار پر قابض حکمران مدت پوری کرنے اور جوڑ توڑ، دھن دھونس، دھاندلی اور الیکشن کمیشن و نگران حکومت کے کاندھوں پر سوار ہو کر اگلی باری لینے کے سوا کچھ اور سوچنے پر کہاں تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے بے وفاؤں، لوٹوں اور موقع پرستوں کا کھلے بازوؤں سے استقبال ہورہا ہے۔ تبدیلی کے نعرے اور انتخابی اصلاحات کے مطالبہ سے مرعوب ہو کر ا لیکشن کمیشن نے قانون سازی کی اصلاحات کا جو مسودہ تیار کیا اس کی منظوری میں پارلیمنٹ رکاوٹ ہے اور امیدواروں کے جانچ پڑتال کے لئے تیس دن دینے پر کوئی آمادہ نہیں۔صرف جانچ پڑتال کے عمل سے اپنے اپنے ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں، جعلی ڈگری ہولڈرز کو بچانے کے لئے اسمبلیاں 16مارچ سے قبل توڑنے کی مخالفت کی جارہی ہے۔
حالانکہ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت کے اقتصادی و معاشی ماہرین، وزارت خزانہ کے ارباب بست و کشاد اور ملکی معیشت کی تباہی و بربادی سے پریشان غیر ملکی دوستوں کی طرف سے بار بار یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ نگران حکومت کے قیام میں مزید تاخیر نہ کی جائے تاکہ ایک طرف تو وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد اگلا بجٹ تیار کرسکے۔ حکومت نوٹ چھاپ کر مزید مہنگائی پیدا نہ کرے، ووٹوں کی خریداری کا کاروبار بند ہو اور سرکاری اداروں میں تھوک کے حساب سے بھرتیوں کا عمل روکا جاسکے جو تباہ حال معیشت کے لئے مزید دباؤ کا باعث ہے۔
مگر حکومت اور اپوزیشن کی ضد ہے کہ اسمبلیاں 16مارچ سے قبل ہی ٹوٹیں گی ۔موجودہ نااہل حکومت و انتظامیہ کی وجہ سے کوئٹہ اور کراچی بیروت بن جائیں ہزارہ کمیونٹی لاشیں سڑکوں پر رکھ کراحتجاج کرے اور غیر ملکی طاقتوں کو پاکستان میں مداخلت کا موقع ملتا رہے۔ ڈالر 100روپے سے زیادہ قیمت کا ہوجائے، آئی ایم ایف کو تین بلین چالیس کروڑ ڈالر کی قسط ادا کرنے کے لئے ریاست کو زیادہ شرح سود پر مزید قرضے ہی کیوں نہ لینے پڑیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس ضد اور ہٹ دھری کو جمہوریت کا تقاضہ اور بروقت انتخابات کی بنیادی شرط سمجھ لیا گیا ہے لوگ گولی سے مریں، بھوک سے یا مہلک امراض سے اشرافیہ کو اس سے غرض نہیں۔
پیپلز پارٹی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو احساس ہوگیا ہے کہ یہ کشتی اب ڈوبنے والی ہے، اس لئے وہ محفوظ کشتی میں چھلانگیں لگا کر سوار ہورہے ہیں۔بظاہر اسلام آباد کے ساحل پر کامیابی سے لنگر انداز ہونے والی کشتی کے سوار اور ملاح مطمئن ہیں مگر کوئی یہ بھی سوچے کہ گزشتہ پانچ سال تک عوام کے ساتھ جو گزری وہ صرف صدر آصف علی زرداری ،سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، فریال تالپور، منظور وٹو اور قائم علی شاہ کا کارنامہ تھا یا ان ارکان پارلیمنٹ اور وزیروں مشیروں نے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ناکام ریاست میں تبدیل کرنے اور عوام کوظلم و زیادتی کے کولہو میں پیلنے کے لئے اپنا مکروہ کردار ادا کیا ، کیا ان کے ہاتھ عوام کے خون سے رنگے نہیں اور عوام تبدیلی کا جو نعرہ لگارہے ہیں اس کا ہدف یہ نام نہاد عوامی نمائندے نہیں جو پانچ سال تو لوٹ مار میں مصروف رہے مگر اب شہیدوں میں نام لکھوانا چاہتے ہیں۔
سازش تو واقعی ہورہی ہے البتہ الیکشن ملتوی کرنے کے لئے نہیں پاکستان پر ایک بار پھر سکہ بند لٹیروں، ڈاکوؤں، ظالموں، بدمعاشوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور عوام دشمن نااہل ،ناکام اشرافیہ کو مسلط کرنے کے لئے ، دو دو چار چار بار رکن پارلیمنٹ، مشیر وزیر اور معاون خصوصی بن کر ملک کو عدم استحکام ،جمہوریت کو بدنامی اور عوام کو بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی اور محرومی سے دوچار کرنے والوں کی بحیلئہ انتخاب و بنام جمہوریت ایوانوں میں واپسی کے ذریعے یہی وجہ ہے کہ موجودہ شقی ا لقلب جمہوریت کوئٹہ کے عظیم سانحات کو اپنے لئے خطرہ نہیں سمجھتی شانت رہتی ہے مگر کوئی انتخابی اصلاحات ،آئین کے آرٹیکلز 62,63پر عملدرآمد کی بات کرے تو یہ الزام و دشنام پر اتر آتی ہے۔
چند روز قبل محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے منصورہ میں عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے موجودہ بدکردار لوگوں کو ا نتخابی عمل سے نکال کر ایماندار اور باکردار افراد کو آگے لائیں۔ یہی بات عمران خان، سید منور حسن اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی کہتے ہیں مگر موجودہ حکمران، سیاستدان اور ان کے مقامی عالمی سرپرست عوام کو کسی شریف اور شریف، باکردار اور باکردار کے درمیان مقابلے اور انتخاب کا حق دینے کے لئے تیار نہیں وہ بدمعاش کے مقابلے میں بدمعاش اور نوسرباز کے مقابلے میں نوسرباز کو کھڑا کرکے عوام کو ان میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور کرتے ہیں اور اسے جمہوریت کا حسن انتقام سمجھتے ہیں تو کیا تبدیلی کے لئے اب ہر ایک کو ہزارہ برادری کی روش اپنانی پڑے گی آخر کس چیز کا انتظار ہے؟