بھاگ گیا سالا

February 19, 2013

کالم کی سرخی پڑھ کر آپ کا دھیان جس طرف چلا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے میں کبھی کسی بزرگ کی شان میں ایسے فقرے نہ لکھ سکتا ہوں اور نہ کہہ سکتا ہوں ویسے بھی ہماری سیاست میں یوٹرن اورر ملک و عوام کے وسیع تر ”مفاد “میں ایسی الٹی قلابازیاں چلتی رہتی ہیں۔ میں تو آج آپ کی توجہ ایک دوسرے واقعہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
میں کئی مرتبہ یہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر دیکھ چکا ہوں کہ اگر دن دہاڑے کوئی چور چوری کرتے عوام کے ہتھے چڑھ جائے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے مثلاً ایک مرتبہ مجھے ایک ٹی وی چینل پر یہ دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ ایک چور ایک مارکیٹ کے باہر سے سائیکل چراتے ہوئے پکڑا گیا۔ وہاں کے دکانداروں اور راہ گیروں نے اس کی وہ درگت بنائی کہ وہ چور ہمیشہ یاد رکھے گا۔ بلکہ زندگی میں جب بھی اس کی نظر سائیکل پر پڑے گی اس کے ایک ایک جوڑ سے کراہنے کی آوازیں آئیں گی اور خاص طور پر میں داد دیتا ہوں اس ٹی وی چینل کے کیمرہ مین کو جس نے بروقت ویڈیو بنائی اور پھر سارا دن وہ ٹی وی چینل پر دکھائی جاتی رہی۔ کچھ عرصہ قبل ایک اور ٹی وی چینل پر ایک بڑی ”زبردست“ ویڈیو دکھائی گئی، جس میں ایک چور ایک دکان پر خوبصورتی سے سجائے ہوئے گھی کے ڈبوں میں سے ایک ڈبہ چوری کرتے ہوئے وہاں عوام کے قابو میں آگیا بس پھر کیا تھا وہاں موجود لوگوں نے اس چور کی جو دھنائی کرنا تھی وہ تو کی بلکہ نائی کو بلا کر اس کے سر کے بال مونڈھ دیئے اس کی بھنویں اور مونچھیں بھی صاف کردیں اور پھر اس کے چہرے پر سیاہی مل کر اس کو پورے بازار میں گھمایا اور بعد میں اسے پولیس کے حوالے کردیا۔ گزشتہ روز تو میں نے ایسا ہی ایک منفرد لائیو شو دیکھا ہے۔ میں ایک بیکری کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھا اپنے دوست کا انتظار کر رہا تھا کہ چور چور کی آوازوں اور بھگدڑنے مجھے گاڑی سے نیچے اتر کر دیکھنے پر مجبور کردیا، معلوم ہوا کہ ایک اکیس بائیس سالہ نوجوان”چور“ نے ایک پیزا لے کر اپنی گاڑی کی طرف جاتے ہوئے صاحب سے وہ پیزا چھینا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ بس پھر کیا تھا، چور چور، پکڑو پکڑو، بھاگنے نہ پائے کی آوازوں نے سب کو الرٹ کردیا۔گاڑیوں کی بے ھنگم پارکنگ کی وجہ سے وہ پیزا چور بھاگنے میں ناکام ہو کر پکڑا گیا بس پھر کیا تھا سب سے پہلے اس کے ہاتھ سے ”پیزا“ لے کر محفوظ کیا گیا کہ کہیں اس سات آٹھ سو روپے کے پیزا کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اس کے بعد کوئی اس لڑکے کوٹھڈے مار رہا تھا تو کوئی اس کی گدی میں چانٹے رسید کر رہا تھا کوئی گھما گھما کر اس کی کمر اور پسلیوں میں مکے رسید کر رہا تھا جبکہ ایک لڑکا اس کے سر کے بالوں سے پکڑ کر ”چور“ کی اس کوشش کو ناکام بنانے کی سعی کرر ہا تھا جس میں وہ اپنے چہرے کو تھپڑوں کی بارش سے محفوظ کرنے کیلئے اسے اپنے بازوؤں کی ڈھال میں چھپا رہا تھا۔ جو لوگ اس لڑکے کو تھپڑ، مکے یا لات رسید کرنے کے فرض سے محروم تھے وہ اس چور کے خلاف زہریلے جملوں کے تیر پھینک کر اپنے غصے کا اظہار کر رہے تھے، کوئی کہہ رہا تھا اس کی ٹنڈ کر دو، کوئی کہہ رہا تھا اس کا منہ کالا کرکے پورے بازار میں گھماؤ اور کوئی کہہ رہا تھا اس کے ہاتھ باندھ دو، جن صاحب کا اس لڑکے نے پیزا چھینا تھا وہ پیزا کو گاڑی میں محفوظ کرکے وہاں واپس آچکے تھے۔ انہوں نے آتے ہی زناٹے دار تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا تمہیں شرم نہیں آئی چوری کرتے ہوئے اور دو چار موٹی موٹی گالیاں بھی دے ڈالیں ”چور“ لڑکا بڑی ہمت سے مار کھا رہا تھا۔ پہلی مرتبہ بولا مجھے معاف کردیں میں کئی دن کا بھوکا ہوں۔ وہ صاحب جھٹ سے بولے بھوکے ہو تو کام کرو میں نے تمہارے باپ کا قرضہ دینا ہے۔ لڑکا تھوڑا سنبھل چکا تھا مارنے والے بھی تھک چکے تھے کہ پیزا کے مالک نے کہا اس کو پولیس کے حوالے کرو۔ پولیس کا نام سنتے ہی لڑکے میں نہ جانے کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک جھٹکا دیا اور ایک مرتبہ پھر بھاگ نکلا، مار مار کر تھکے ہارے ہجوم میں سے شاید کسی میں بھی اب اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ بھاگ کر اس ”چور“ کو پکڑے ویسے بھی معاشرے کے ان شرفا نے خوب ہاتھ صاف کرلیا تھا۔ یوں ”چور“بھاگنے میں کامیاب ہو گیا جن صاحب کاپیزا گیا تھا وہ صاحب یہ کہہ کر گاڑی کی طرف چلے گئے کہ بھاگ گیا سالا۔۔۔۔ ورنہ آج میں اسے پیزا کھلا کر ہی بھیجتا۔ سب دوبارہ اپنے اپنے کام میں مشغول ہو گئے جیسے ابھی چند لمحوں پہلے کچھ ہوا ہی نہ تھا میں وہاں کھڑا اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ آخر میں نے اس لڑکے کو تھپڑ، لاتیں اور مکے مارنے کا یہ سنہری موقع کیوں کھو دیا۔ میں بھی اس کو سزا دیتا کہ وہ قائد اعظم کے اس پاکستان میں کیوں پیدا ہوا؟