محمد ﷺ کی ازدواجی زندگی

November 15, 2019

تحریر:ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا۔ مغربی بنگال
آخر میں نبی کریم ﷺ کا نکاح جن سے ہوا وہ حضرتِ میمونہؓ بنت حارث تھیں۔ اُن سے بھی آپ ﷺ کا نکاح سات ہجری میں پیارے نبیﷺ کے حالتِ احرام میں ہی مقام ’’سرف‘‘ پر عمرۃ القضاء کی واپسی میں ہوا اور 63 ہجری میں اسی مقام ’’سرف‘‘ پر اُن کا انتقال بھی ہوا اور اسی حجرہ میں دفن کی گئیں جہاں پہلی دفعہ نبی کریم ﷺ کی قربت سے سرفراز ہوئی تھیں۔ حضرتِ میمونہؓ ایسی مومنہ تھیں جن کو پیارے نبی ﷺ سے والہانہ عشق تھا اور وہ بغیر مہر کے حضورﷺ کے نکاح میں آنے کے لئے راضی تھیں لیکن رسولِ پاک ﷺنے اُن کا مہر بخوشی ادا کردیا تھا۔ اُن سے بھی 76 حدیثیں منقول ہیں۔ حضرت میمونہؓ آپ کی سگی چچی ام الفضل (زوجہ حضرتِ عباسؓ) کی حقیقی بہن تھیں جو بیوہ ہوچکی تھیں اور اُن کے نکاح کی سفارش حضرت عباسؓ نے خود کی تھی۔ اُن کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ’’میمونہؓ ہم سے زیادہ خدا سے ڈرنے والی اور صلائے رحم کا خیال رکھنے والی تھیں۔‘‘
ان تمام ازواج کے علاوہ مقوقش شاہِ مصر کی بھیجی ہوئی حضرتِ ماریہ قبطیہؓ آپ ﷺکی حرم تھیں۔ انہیںﷺ نے کنیز ہی رہنے دیا اور جن کے بطن سے آپ ﷺ کے شاہزادے حضرتِ ابراہیمؓ پیدا ہوئے۔ آپؓ مدینہ شریف کی بستی عالیہ میں رہتی تھیں۔ آپؓ نہایت حسین و جمیل تھیں۔ آپؓ کے بارے میں حضرتِ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھے کسی عورت کا آنا اِس قدر ناگوار نہ ہوا جتنا اُن کا ہوا تھا کیونکہ وہ بہت حسین و جمیل تھیں اور حضورﷺ کو بہت پسند آئی تھیں‘‘۔
حضور ﷺ کی بیویوں میں بھی جذبۂ رقابت تھا لیکن اُن کے آپسی تعلقات بہت خوشگوار تھے۔ ایک دوسرے کی عزت اور محبت اُن کا وطیرہ تھا۔ اگر کبھی کوئی ناراضگی ہو بھی جاتی تو بہت جلد دور کرلی جاتی تھی اور ایسا اس لئے ہوتا تھا کہ وہ سب خدا ترس اور خوفِ خدا رکھنے والی تھیں۔ دوسری طرف جہاں انہیں امتیازی شان حاصل ہوئی تھی وہیں اللہ پاک کی جانب سے اُن کے لئے واضح احکامات کا نزول وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا تھا۔
سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ دوسرے لوگوں سے گفتگو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی میں مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔‘‘ اسی طرح سے سورہ تحریم میں آپ ﷺکی دو ازواجِ مطہرات کو اس بات کے لئے تنبیہ کی گئی کہ وہ نبی کریمﷺ کی بتائی ہوئی راز کی بات کسی اور کو نہ بتایا کریں۔ حالانکہ افشائے راز کا یہ معاملہ دو ازواج کے درمیان ہی تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کو یہ بات بھی پسند نہ آئی اور سخت الفاظ میں اُن کی تنبیہ کی گئی۔ ان ہی امہات المومنین کی امتیازی شان کے لئے اللہ پاک کا ارشاد ہے۔ ’’مومنین پر نبی اُن کی جانوں سے بڑھ کر ہے اور نبی کی ازواج مومنوں کی مائیں ہیں۔ (سورہ احزاب)
لیکن اس امتیازی شان کے باوجود امہات المومنین نے کوئی شاہانہ زندگی بسر نہیں کی، محنت و مشقت کو اپنا وطیرہ بنایا اور جتنا بھی اُن کے پاس تھا اس سے بھی وہ برابر غربا و مساکین کی مدد کرتی رہیں۔ اُن کی رہائش کے حجرے تقریباً نو فٹ چوڑے اور پندرہ فٹ لمبے، کچی اینٹوں یا مٹی کے بنے ہوتے تھے جن کی چھت کھجور کی شاخوں اور پتوں سے بنی ہوئی تھی، جن کو چھت پر ڈال کر لپائی کردی گئی تھی، کوئی صحن بھی نہیں تھا اور ایک کمبل یا کواڑ کا دروازہ ہوتا تھا۔
نبی کریم ﷺ کا یہ عالم تھا کہ ایک بار ام المومنین حضرتِ حفصہؓ نے چار تہ کرکے بستر کو ذرا موٹا کرکے بچھا دیا تھا تاکہ آپ ﷺ کو آرام ملے اور آپ ﷺ وقت پر نماز کے لئے نہ اٹھ سکے تو صبح کے وقت بہت ہی ناگواری کا اظہار کیا۔ جن پر دونوں جہان کی نعمتیں قربان جانے کو تیار تھیں اُن کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے لئے کسی شان و شوکت کو پسند نہ فرمایا۔ مالِ غنیمت میں بھی اپنے اور اپنی ازواج کے لئے کوئی حصہ نہ رکھا جبکہ آپﷺبہ نفسِ نفیس میدانِ جنگ میں موجود ہوتے تھے۔ اُن کی ازواج میں سے دو یعنی حضرتِ عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کی بھی مختلف غزوات میں موجودگی کی روایت ہے۔
دراصل نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی، اُن کے تمام اعمال اللہ کی رضا کے لئے تھے یہاں تک کہ اُن کا نکاح بھی اللہ کی مرضی سے چند مصلحتوں کی بنا پر ہوا تھا۔ ان میں کہیں بھی پیارے نبی ﷺ کی نفسانی خواہشات کا کوئی دخل نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ ﷺ کا نکاح بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نہ ہوتا۔ ازواجِ مطہرات میں حضرت عائشہؓ کے علاوہ سبھی بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ یہاں تک کہ آپﷺ کا پہلا نکاح بھی عین عالم جوانی میں ایک بیوہ خاتون سے ہی ہوا جن کے ساتھ آپﷺ کی سب سے طویل 25 برسوں کی رفاقت رہی۔ سورہ احزاب کی آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان مصلحتوں کی جانب بھی اشارہ کیا ہے اور پیارے نبی ﷺ کو کچھ خاص قسم کی عورتوں سے نکاح کی اجازت بھی دی ہے۔ چند خاص قسم کی عورتوں کے زمرے میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی ملکیت میں آنے والی امۃ کی عطا کردہ لونڈیوں کو رکھا ہے اور ان خالہ زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور چچا زاد بہنوں کو رکھا جنہوں نے اسلام کی خاطر ہجرت کی اورصعوبتیں برداشت کیں اور اپنے آپ کو ہبہ کرنے والی مومنہ یعنی بغیر مہر کے پیارے نبیﷺ کے نکاح میں آنے کے لئے تیار مومن عورتوں کو بھی رکھا۔
اس کے علاوہ جو چند مصلحتیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے پیشِ نظر تھیں اُن میں سے ایک تو یہ تھا کہ تعلقات کو زیادہ گہرا، مستحکم اور دوستیوں کو زیادہ مضبوط بنایا جائے لہٰذا حضرتِ عائشہؓ و حضرتِ حفصہؓ سے نکاح کے بعد حضرتِ ابوبکرؓ و عمر فاروقؓ نے اپنے رشتہ کو مزید استحکام بخشا۔ ام المومنین حضرتِ ام سلمہؓ اور حضرتِ ام حبیبہؓ سے نکاح کے بعد ابوجہل اور ابو سفیان کے خاندان سے اپنی عداوتوں کو کم کیا یہاں تک کہ اس نکاح کے بعد ابو سفیان آپ ﷺے مقابلے پر کبھی نہ آئے۔ ام المومنین حضرتِ جویریہؓ اور حضرتِ صفیہؓ سے نکاح کے بعد قبیلہ بنی مصطلق، خیبر اور بنو نضیر جیسے مضبوط قبیلوں کی سرگرمیاں و ریشہ دوانیاں بالکل ٹھنڈی پڑگئیں۔ ام المومنین حضرت زینبؓ بنت حجش آپﷺ کی پھوپھی زادبھی تھیں اور آپ ﷺسے نکاح کے بعد اس جاہلانہ رسم کا خاتمہ ہوگیا کہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ خود کو ہبہ کرنے والی میں حضرت میمونہؓ تھیں لیکن ان کا مہر بھی نبی کریم ﷺنے ادا کردیا تھا۔
ان سیاسی و سماجی مصلحتوں کے علاوہ عام مسلمانوں کی ازدواجی زندگی کے لئے بھی پیارے نبی ا کی ازدواجی زندگی کے عملی نمونوں کا سامنے رہنا بہت ضروری تھا کیونکہ پیشِ نظر نہ صرف ایک بگڑے ہوئے عرب سماج کی اصلاح تھی بلکہ سارے عالم انسانیت کی صحیح راہ نمائی تھی۔ اسی وجہ سے آپﷺ نے نہ صرف اپنے خاندان میں بلکہ خاندان کے باہر بھی، نہ صرف کنواری بلکہ بیوہ اور مطلقہ، آزاد کردہ لونڈیوں، بے اولاد اور بچے والیوں، غریب و امیر، خوبصورت و قبول سیرت، دراز و کوتاہ قد، کم، درمیانہ اور زیادہ عمر کی، دیندار اور بالکل نو مسلم ہر طرح کی عورتوں سے نکاح کرکے رہتی دنیا تک کے لئے ایک مثال قائم کردی۔ ان مختلف قسموں اور مختلف عمروں کی بیویوں سے نکاح کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مذہب اسلام کے احکام و قوانین کو ہر درجے، ہر قسم، ہر عمر اور ہر قبیلہ و خاندان کی عورتوں کے درمیان عام کیا جائے، چونکہ فطری شرم و حیا کے باعث عورتیں مردوں سے اپنے مسائل کے لئے رجوع نہیں کرپاتی تھیں اس لئے رسولِ پاک ﷺ کی یہ پاک بیویاں ان کی مشکلات کو آسان کردیتیں اور اُن کے سوالوں کے جوابات یا تو آپ ﷺ سے پوچھ کر یاپھر آپﷺ کی حدیثوں کی روشنی میں عورتوں کو دے کر انہیں مطمئن کردیتیں۔
ایام حیض کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں حضرتِ میمونہؓ نے فرمایا تھا کہ آپﷺ برابر ہم لوگوں کے بچھونوں پر آرام فرماتے، ہماری گود میں سر رکھ کر لیٹتے اور قرآن پڑھتے تھے جب کہ ہم اس حالت میں ہوتی تھیں۔ پھر انہوں نے سمجھایا کہ عورتیں اس حالت میں ہوں تو اُن کے چھونے سے کوئی چیز ناپاک نہیں ہوجاتی۔
حضرتِ ام حبیبہؓ کی اس درخواست پر کہ آپ ﷺ میری بہن عزہ سے نکاح کرلیں تو آپ ﷺ نے منع کردیا اور انہیں یہ بات سمجھائی کہ بیوی کی زندگی میں اُس کی بہن سے نکاح جائز نہیں۔ ٹھیک اسی طرح حضرتِ ام حبیبہؓ کے ذریعہ یہ بھی پتہ چلا کہ تین دنوں سے زیادہ کسی کا سوگ جائز نہیں سوائے شوہر کے جس کے لئے چار ماہ اور دس دن کی مدت تک بیوی کو سوگ کرنا چاہئے۔
اسی طرح سے نکاح کے لئے فریقین کی رضامندی، مہر کی ادائیگی، ولیمہ کی دعوت، جہیز کی صورت، نصیحت، فرماں برداری، محبت، دلجوئی، رشتہ دارو احباب کے درمیان تحائف کا تبادلہ، دورانِ سفر اپنی تمام بیگمات کے آرام کا خیال، خوش اخلاقی، خندہ جبینی اور بے تکلفی کی تمام تر شہادتیں آپ ﷺ کی ازدواجی زندگی سے ہمیں ملتی ہیں۔ پیارے نبی ﷺکے تعلق سے ام المومنین حضرتِ عائشہؓ فرماتی ہیں۔ ’’ازواج یا خادموں میں سے نہ کبھی کسی کو مارا نہ کسی سے کوئی ذاتی انتقام لیا بجز اس کے کہ آپﷺ خدا کے راستے میں جہاد کریں یا قانونِ الٰہی کے تحت اس کی مقرر کردہ حرمتوں کے تحفظ کے لئے کاروائی کریں۔‘‘
غرض آپ ﷺ کی پوری ازدواجی زندگی کی مصلحتوں میں آپ ﷺ کے پیش نظر ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں حسنِ سلوک، حسنِ انتظام اور عدل و انصاف کے علاوہ ازواج کے آپسی رویوں اور اُن کے تعلقات اور تمام عورتوں میں دینی تعلیم کی اشاعت ہی اولین ترجیحات تھیں جن میں آپ ا بلاشبہ کامیاب ترین ثابت ہوئے۔ اللہ رسولِ پاک ﷺ اور اُن کی ازواجِ مطہرات کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (اختتام)