سیاسی ڈائری:نوازشریف کی علالت،بیرون ملک جانے کا قضیہ بگاڑ کا شکار

November 16, 2019

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کسی ٹھوس اور تعمیری کارکردگی کا مظاہرہ کئے بغیر غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی ہوگئے ہیں سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف کی سنگین علالت اور انہیں علاج کی غرض سے بیرون ملک لے جانے کا قضیہ بگاڑ کا شکار ہو کر اب عدالتی دہلیز پر پہنچ گیا ہے۔ نواز شریف جن کے لئے حکومت کے مقررہ کردہ معالجین کا بورڈ زوردار طور پر دو ہفتے قبل کہہ چکا ہے کہ انہیں بلاتوقف بیرون ملک بھجوا دیا جائے تا کہ ان کے مرض کی تشخیص ہو سکے تا کہ موزوں ترین علاج کے ذریعے ان کی زندگی بچائی جا سکے۔ حکومت حیلوں بہانوں سے ان کی بیرون ملک رونگی میں رخنہ ڈال رہی ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ وفاقی دارالحکومت سے مراجعت کے بعد پورے ملک میں پھیل گیا ہے اور حکومت اسے خاطرخواہ اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ مارچ کے اسلام آباد میں دو ہفتے کے پڑائو نے حکمرانوں کے اوسان خطا کئے رکھے۔ وزیراعظم نے قصد کر لیا ہے کہ وفاقی ہی نہیں پنجاب اور کے پی کی صوبائی کابینائوں میں بھی رد و بدل کیا جائے گا اور بعض وزراء ار مشیروں کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا جائے گا۔ قومی اسمبلی میں جہاں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کے پہلے روز طوفانی رفتار اور اندازے سے نو صدارتی آرڈی ننس تمام قواعد و ضوابط کو پامال کرتے ہوئے منظور کرا لئے تھے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری جنگ میں غیرمعمولی شدت آ گئی تھی پاکستان مسلم لیگ نون کے پارلیمانی گروپ لیڈر خواجہ محمد آصف نے حزب اختلاف میں شامل دیگر حلیف گروپس سے صلاح مشورہ کئے بغیر اضطراری کیفیت میں ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک دائر کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان دراصل ڈپٹی اسپیکر کے عاجلانہ طرزعمل کے خلاف احتجاج کی غیرمعمولی علامت تھا۔ پیپلزپارٹی، جمعیت العلمائے اسلام اور حزب اختلاف کے طرفدار آزاد ارکان نے عدم اعتماد کے حوالے سے سردمہری کا رویہ اختیار کرلیا حالانکہ خواجہ محمد آصف نے تحریک پیش کرنے کا اعلان کیا تو جمعیت کے ارکان قومی اسمبلی اور ان کے پارلیمانی قائد مولانا اسعد محمود ان کے پہلو میں کھڑے تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن، حزب اختلاف کے اپنے حلیف گروپ اور رہنمائوں کے آزادی مارچ کے حوالے سے لاتعلقی پر مبنی رویئے کے بارے میں حرف شکایت نوک زبان پر نہیں لائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے بارے میں خاطرخواہ دوستانہ کردار ادا نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی کا مولانا کے پلان بی سے یہ کہہ کر کاملاً راستہ جدا کرنے کا اعلان کہ اسے اعتماد میں نہیں لیا گیا دراصل اپنے دستورالعمل پر کاربند رہنے کا عزم ہے۔ مولانا نے آزادی مارچ کے آخری ایّام میں مذہبی معاملات کے ضمن میں وہ باتیں بھی کہہ ڈالیں جو پیپلزپارٹی کے نظریئے سے مطابقت بھی نہیں رکھتی تھیں بلکہ متصادم تھیں۔ حزب اختلاف کی صفوں میں کامل یک جہتی کا فقدان اس کے اکابرین کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ سابق نائب وزیراعظم اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے یہ کہہ کر مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا کامیاب رہا ہے اور وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر متفقہ قائد حزب اختلاف بن کر اُبھرے ہیں، حزب اختلاف کی یک جہتی کے لئے نئے سوال کھڑے کئے جانے کا باعث بن گیا ہے۔ حکومت کا مولانا فضل الرحمٰن کی آزادی مارچ میں تقاریر پر قانونی چارہ جوئی کرنے کا فیصلہ بھی محل نظر ہے کیونکہ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کی تقاریر اور اعلانات تو کہیں بہت بڑھ کر آئین و قانون شکنی سے عبارت تھے۔ ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما نوازشریف کے سلسلے میں حکومت کی مجرمانہ رخنہ اندازی خواہ اسے اعلیٰ حکومتی عہدیدار کس قدر ہی لبادے نہ اوڑھا دیں کسی قومی المیے کو جنم دینے کا باعث بن سکتے ہیں حکومت نوازشریف کے ساتھ اعصابی جنگ میں مصروف ہے جس کا مقصد سیاسی فوائد حاصل کرنا ہے یہ رویہ کسی سیاسی جماعت اور کسی باشعور سیاستدان کے ہرگز شایان شان نہیں ہے۔ نوازشریف نے ہمیشہ شائستگی اور اعلیٰ قدروں کی پاسداری کی ہے۔ ان کے ساتھ باوقار طرزعمل اختیار کیا جانا چاہئے اور ایک قومی رہنما جب بستر علالت پر ہو تو اس کے بارے میں استعمال کی جانے والی زبان میں کم از کم ہرزہ سرائی نہیں ہونی چاہئے۔