اقبال اور جرم ضعیفی کی سزا

November 19, 2019

تحریر: محمد شریف بقا ۔۔۔لندن
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اندھی، ظالم اور غیر محدود طاقت ہمیشہ خطرناک نتائج کو جنم دے کر ان کی معاشرت اور اخلاقی ضوابط کا نظام درہم برہم کردیتی ہے۔ نیک ارفع اور انسانیت ساز کاموں کے لئے طاقت کا حصول درست ہے مگر فساد عالم، انسان کشی اور اخلاقی گراوٹ کو پیدا کرنے والی طاقت کو کسی طرح بھی قابل ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جرمن فلسفی نطشے (1844-1900ء) کے برعکس علامہ اقبالؒ جلال و جمال یعنی طاقت اور اخلاقیات کے حسین اور متوازن امتزاج کے قائل تھے۔ وہ انسانوں کے لئے کسی قسم کی ضعیفی کو مستحسن خیال نہیں کرتے تھے، کیونکہ یہ انسانی خودی کے استحکام کی راہ میں سنگ گراں ثابت ہوتی ہے۔ ان کی نظر میں کمزوری ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا عموماً مرگ صفاجات کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس موضوع کے بارے میں علامہ اقبالؒ کے نظریات کا خلاصہ یہاں پیش کیا جائے گا۔ تاریخ انسانیت اس بات کو گواہی پیش کرتی ہے کہ جب بھی کسی قسم نے خدائی نطام حیات اور وحی پر مبنی اخلاقی اصولوں اور حدود کی خلاف کی تو اسے زود یا بدیر قدرت کی طرف سے سزا دی گئی۔ قوم نوحؑ، عاد، ثمود، قوم لوطؑ اور بنی اسرائیل وغیرہ کے حالات اس جرم کی پاداش میں گرفتار عذاب ہوئے۔ جب بھی کوئی قوم قدرت کے ابدی اصولوں کو پامال کرے گی اسے بالفور مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انسان کو خدا نے عقل و شعور کی نعمت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے صراط مستقیم کی بھی نشاندہی کی ہے، تاکہ وہ صحیح معنوں میں یہاں نائب حق اور اشرف المخلوقات کا فریضہ سرانجام دے اور اس جہان کو گہوارہ امن و راحت بنادے۔ اگر وہ اپنے اس مقام رفیع سے گر کر حیوانیت کی سطح تک پہنچ جائے تو پھر وہ اپنی کوتاہیوں اور اخلاقی کمزوریوں کی سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ اس کی یہ عظیم ترین کمزوری اس کی غلامی، پستی، جہالت، پسماندگی، جگ ہنسائی اور رسوائی کا سبب بن جائے گی۔ ظاہری طور پر تو وہ زندہ دکھائی دے گا مگر اپنے روحانی ضعف اور اخلاقی ضعیفی کی بنا پر اسے مردہ تصور کیا جائے گا اس کے خبث باطن اور روحانی کثافت سے دوسرے انسان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یاد رہے کہ فرد کی طرح کوئی قوم بھی اخلاقی کمزوریوں کا شکار ہوکر اپنی مرگ مفاجات کا خود سامان پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔ علامہ اقبالؒ کے نظریہ طاقت کا اخلاقی ضوابط اور انسانیت پرور اصولوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اس لئے انہوں نے جلال و جمال کو ہم آہنگ کرکے یہ واضح کیا ہے کہ جس طرح اخلاقی نظام کے قیام کے لئے جلال یعنی طاقت کا ہونا لازمی ہے، اس طرح طاقت کو اخلاقی حدود و قیود کے اندر رکھنا بھی ناگزیر ہے۔ وہ اپنی ایک نظم ’’قوت اور دین‘‘ میں طاقت اور اخلاقیات کا امتزاج اور ان کی علیحدگی کے موضوع پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں
اسکندر و چینگ کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نظراں! نشہ قوت ہے خطرناک
لادیں ہو تو ہے زہریلا ہل سے بھی بڑھ کر
ہودیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
علامہ اقبالؒ کے فلسفہ طاقت و ضعف سے آگاہ ہونے کے لئے اس کے معاشرتی اور سیاسی پس منظر کو مختصراً بیان کرنا ضروری ہے۔ وہ جس دور میں پیدا ہوئے وہ نہ صرف مسلمانان ہند بلکہ دیگر ممالک کے مسلمانوں کے لئے بھی انحطاط، پستی، زبوں حالی، نکبت و ادباز، قنوطیت، تقدیر پرستی، بے عملی، فکری جمود اور غلامی کا آئینہ دار تھا۔ اغیار کی حکمرانی نے انہیں زندگی کے ہر ایک اہم شعبے میں پسماندہ اور مجبور و مقہور بناکر رکھ دیا تھا۔ قناعت پسندی اور غیر اسلامی تصور اور فقدان خودی نے انہیں زندگی کے معاملات سے لاتعلق کردیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مصائب و مسائل کی دلدل میں بری طرح پھنس کر رہ گئے تھے۔ مسلمانوں کی اس ہم گیر ابتری اور کمزوری کو دور کرنے کے لئے علامہ اقبالؒ نے انہیں عمل، ترقی، جفاکشی، حصول علم، حصول طاقت اور خودی کی اہمیت سے آگاہ کرنے کا عزم کرلیا۔ اس دور زوال میں فلسفہ طاقت و رجائیت پیش کرنا ہی دور اندیشی اور حکمت بالغہ کا تقاضا تھا۔ اپنی شاعری کو انہوں نے اپنے ولولہ خیز پیغام حیات اور انقلاب آفرین تعلیمات کا ذریعہ بنایا، تاکہ وہ اپنی محکوم اور پسماندہ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرسکیں۔ انہوں نے ان کے صنعف خودی اور دیگر کمزوریوں کی نشاندہی کرکے انہیں خودی اور طاقت کی اہمیت سے آگاہ کیا، حکم الامت اور نباض ملت کی حیثیت سے انہوں نے ملت اسلامیہ کے تمام اہم امراض کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ اس کے لئے علاج شافی بھی تجویز کیا۔ بلاشبہ یہ ان کا بہت عظیم اور کھٹن کارنامہ تھا جسے انہوں نے بتوفیق ایزدی سرانجام دیا۔ علامہ اقبالؒ نے جب اپنے زمانے کے مسلمانوں کی غلامی، بے چارگی، مایوسی، بے عملی، تقدیر پرستی، خوف کی فضا، جہالت، اخلاقی گراوٹ، اقتصادی بدحالی اور سیاسی ابتری پر غور و فکر کیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ سب بیماریاں دراصل کمزوری یعنی ضعف خودی کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے انہوں نے مسلمانوں کی خودی کو بیدار کرنے کے لیے اپنی مشہور کتاب ’’اسرار خودی‘‘ لکھی۔ ان تمام امراض کی تشخیص کرتے ہوئے انہوں نے درست کہا تھا۔
صد مرض پیدا شد از بے طاقتی
بے طاقتی کی وجہ سے یہ ساری بیماری پیدا ہوئی ہیں۔
چنانچہ انہوں نے اس بے طاقتی کو دور کرنے کے لیے مختلف عنوانات، اسرار خودی، کے تحت اپنے خودی ساز افکار و احساسات کا اظہار کیا اور خودی کے استحکام کے اسباب پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی جن کا خلاصہ یہ ہے۔
1۔ کمزور نظریہ حیات، کمزور نظام معاشرت و ضابطہ اخلاق کی بنیاد بنتا ہے، جس پر چل کر افراد ملت کمزور شخصیت کے حامل ہوجاتے ہیں۔
2۔ کمزور شخصیت والے انسان جفاکشی، عمل مسلسل، بلند ہمتی، احساس خود داری، آرزوئے ترقی، آزادی کی تڑپ، تسخیر فطرت اور رجائیت کی صفات سے محروم ہوجاتے ہیں۔
3۔ کمزور افراد کے مجموعہ سے ترتیب پانے والی قوم بھی لازماً کمزور ہی ہوتی ہے۔
4۔ غربت اور امتیاج ایسے انسانوں سے شیروں کی صفات چھین کر انہیں روباہ صفت بنادیتی ہیں، بقول اقبالؒ
آنچہ شیراں را کند رویاہ مزاج
امتیاج است، امتیاج است، امتیاج
کیا موجودہ حالات میں اسلامیان عالم کم و بیش دوسروں کے دست نگر اور ان کے استحصال کا نشانہ بنے ہوئے نظر نہیں آتے؟ مفکر اسلام نے اس گہری حقیقت کو ایک ہی مصرعے میں یوں سمو دیا ہے۔
ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش
یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ کمزور انسان اور ضعیف اقوام برہ معصوم بنے رہتے ہیں اور طاقتور لوگ بھیڑیے کی طرح ہمیشہ ان کو ذبح کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔ کمزور بھیڑوں کی کثرت سے شیر اور بھیڑیا کبھی خائف نہیں ہوتے۔
مندرجہ بالا امور کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے انہیں یہ حقیقت ثابتہ سمجھانے کی سعی کی ہے کہ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی کوتاہیوں کو دور کرنا چاہیے اور اپنی ذات کو مستحکم کرکے ہمیں زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ ملت اسلامیہ کے ضعف ہمہ گر کو دور کرنے کے لئے علامہ اقبالؒ نے ہمیں جہد مسلسل، استحکام خودی، عرفان ذرت، آزادی خواہی، حصول علم، محبت اسلام، اطاعت خدا وندی، عشق رسولؐ اور نیابت الٰہی کی صفات اختیار کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے اپنی نظم ’’ابوالعلا مصری‘‘ میں یہ بجا فرمایا ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات