پریزیڈنٹ ڈے

February 24, 2013

امریکی قوم بھی ہمارے لاہوری بھائیوں کی طرح بڑی زندہ دل قوم سمجھی جاتی ہے ، کھانے پینے ، اچھا پہننے ، گھومنے پھرنے ہی کو زندگی کا مقصد سمجھتی ہے ۔ امریکہ میں ہر ہر موقع کے نام سے تہوار منانے کی رسمیں ہیں مثلاً باوجود اس امر کے کہ امریکہ کے شہر شکاگو میں ہی مزدوروں پر گولیاں برسائی گئی تھیں مگر آج اس غم کو مٹانے کے لئے لیبر ڈے منایا جاتا ہے۔ ماں باپ سے سال بھر نہ ملنے کے باوجود ایک دن فادر ڈے اور ایک دن مدر ڈے منا کر سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے ماں باپ کا حق نبھا دیا۔ اسی طرح روٹھی ہوئی محبوبہ کو ایک دن اس کو پھول پیش کرنے کا دن ویلنٹائن ڈے منا کر خوش کر دیا جاتا ہے۔کرسمس اور سالِ نو بھی زور شور سے منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار کئی صدیوں سے منائے جارہے تھے مگر 1968ء سے امریکی کانگریس نے اپنے بانی صدور جارج واشنگٹن اور ابراہم لنکن کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ہر سال فروری کے تیسرے پیر کو صدارتی دن منانے کا دن منظور کیا۔ اس دن سے آج تک یہ دن منایا جاتا ہے اور دیگر تہواروں کی طرح چھٹی ہوتی ہے۔
1971ء میں صدر نکسن نے اس میں ترمیم کر کے ماضی کے تمام صدور سے منسلک کردیا گیا تاکہ امریکہ کی یوم آزادی سے لیکر موجودہ صدر تک کو خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔ امریکہ میں بھی صدر ابراہم لنکن اور صدر کینیڈی کو قتل کیا گیا ۔ 2صدور کا خود ان کے دور میں مواخذہ کیا گیا ان پر بھی الزامات لگے، صدر نکسن پر حزبِ اختلاف کی جاسوسی کے الزامات ثابت ہونے پر صدر نکسن کو قبل از وقت مستعفی ہونا پڑا ۔ صدر کلنٹن نے اپنے دور میں معیشت کو مضبوط کیا اور دوسرے دور میں مونیکا اسکینڈل کا اقرار کر کے انہیں قوم سے معافی مانگنی پڑی ۔ امریکی تہواروں کے ساتھ ہنسی خوشی سال گزارتے ہیں، یہ ان کا کلچر ہے۔
صدرارتی دن کے حوالے سے برصغیر ہند و پاک میں بھی صدارتی نظام ہے مگر ان دونوں ممالک میں صدارتی دن منانے کی کوئی رسم نہیں ہے خصوصاً ہمارے ہاں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ امریکہ میں آنے والا صدر، جانے والے صدر کو خراج تحسین پیش کرکے بیٹھتا ہے مگر ہمارے ہاں صدر ایوب نے صدر اسکندر مرزا کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کیا۔ صدر ایوب کو یحییٰ خان نے مجبور کر کے صدارت سے استعفیٰ لیا اور خود صدر بن بیٹھے ۔ فوجی جرنیلوں نے ہی صدر یحییٰ کو معزول کر کے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا ۔ فرق صرف فوجی اقتدار میں صدر، صدر ہوتا ہے ، وہ عقل کل سمجھا جاتا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر جمہوری نظام میں صدر صرف ایک شو پیس ہوتا ہے جیسا کہ بھٹو کے دور میں صدر فضل الٰہی تھے۔ بہرحال جب بھٹو کے خلاف تحریک فیصلہ کن موڑ پر پہنچی تو پھر فوج نے مداخلت کی اور ضیاء الحق صدر بن گئے ۔ ہوائی حادثہ میں صدر ضیاء الحق جاں بحق ہوئے تو جنرل اسلم بیگ نے خود اقتدار نہیں سنبھالا، البتہ اس وقت کے سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان کو نامزد کر کے الیکشن کرائے، جنہوں نے جمہوریت تو بحال کر دی مگر یکے بعد دیگرے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں 2دو بار توڑ کر اپنے مضبوط صدر ہونے کا ثبوت دیا مگر جب تیسری بار مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو توڑنے کی کوشش کی تو خود کو بھی مستعفی ہونا پڑا پھر وزیراعظم معین قریشی کو امپورٹ کیا جنہوں نے الیکشن کرائے پھر پی پی پی کی حکومت بنی ۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے فاروق لغاری کو اپنا صدر بنایا تو کچھ عرصے کے بعد انہی کے صدر نے ان کی حکومت ختم کر دی اور الیکشن کروا کر مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف کو اقتدار سونپ دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی حکمت عملی سے صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر کے قصرِصدارت پر اپنا صدر محمد رفیق تارڑ کو نامزد کر دیا ۔ کارگل کا واقعہ پیش آیا تو وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف میں ٹھن گئی اور پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ اُلٹ دیا۔ الغرض صدر پرویز مشرف 8سال تک حکومت کرتے رہے ۔ 9/11کے واقعے نے پاکستان کو افغان امریکہ جنگ تحفے میں دلوائی، جس سے پھر پاکستان معاشی مشکلات سے دوچار ہوا ۔ اس دوران لال مسجد ، بلوچستان میں اکبر بگٹی کا قتل، محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل اور موجودہ چیف جسٹس کے خلاف ایکشن ان کے گلے پڑ گیا۔ الیکشن بھی (ق) لیگ ہار گئی اور پی پی پی پھر اقتدار میں آئی ۔ آصف علی زرداری نے حکمت عملی سے صدر مشرف سے استعفیٰ لے لیا اور اب صدر آصف علی زرداری نے 5سال حکومت کر کے پہلی مرتبہ جمہوری حکومت ہونے کا ریکارڈ قائم کیا۔ اب پھر الیکشن سر پر ہیں، ہر طرف افراتفری ہے، عوام دہشت گردی سے سہمے ہوئے ہیں ۔ اگر امریکہ کی طرح ہم صدارتی دن منائیں تو کیا خراج تحسین صدور صاحبان کے حصے میں آئے گا اور ہم اپنے صدور کو کس نام سے یاد کریں گے؟