سیاسی لطف اُٹھانے کا موسم

November 24, 2019

سماجیات پر قابو نہ سیاسیات پر گرفت، موثر تحریریں نہ عمدہ تقریریں، مثبت سیاست نہ خوشحال ریاست، یہ سب ہم تو انجوائے نہیں کر پا رہے پھر لطف کون اٹھا رہا ہے؟

جانتے ہیں کہ ہر سوال کا جواب ملنا ضروری نہیں اور نہ ہر سوال اٹھانا ہی ضروری ہے لیکن جس معاشرے میں درست سوال اٹھانا جرم بن جائے یا بلاوجہ سوال اٹھائے جائیں، وہ معاشرہ اخلاقی و اصولی اقدار سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ معاشرہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر ہر ایک صورت میں وہاں عام آدمی کی کثرت ہوتی ہے۔ اگر عام آدمی مطمئن نہ ہو تو سمجھ لیجئے معاشرے میں قحط الرجال ہے! یہ درست کہ وزیراعظم نے پچھلے دنوں بڑی شاندار و جاندار بات کی ’’اکیلا بھی مافیا سے لڑوں گا‘‘ اللہ سربراہِ حکومت کو ہمت دے! لیکن صداقتِ عامہ یہ بھی ہے کہ بیمار معاشرے جب ضروری اور غیر ضروری میں تفریق نہیں کر پاتے تو قیامت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔

یہ قیامت نہیں تو کیا ہے، فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن میں کارروائی پر کچھ لوگ شادیانے بجا رہے ہیں کہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا دریچہ کھل گیا کیونکہ تحریک انصاف نے بھی پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے خلاف ایسی ہی درخواست دے دی۔ بتائیے رُخِ سیاست پر جمہوری خال نہیں تو کلنک کا ٹیکہ چاہئے کیا؟ جو بھی ہے سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو مگر سسٹم لپٹا تو کوئی بھی سیاست سے لطف نہ اٹھا پائے گا۔ بہرحال پیپلزپارٹی ایک اکیڈمک سیاسی و جمہوری پارٹی ہے وہ ژرف نگاہی سے کام لے!

ایک قیامت یہ بھی کہ پھر پولیو کے حوالے سے رپورٹس تسلی بخش نہیں ہیں۔ آج کی حکومت کے پاس نیشنل ہیلتھ سروسز کے لئے وزیر ہی نہیں اور مشیر سے کام چلایا جارہا ہے کہ وہ کمال ٹیکنوکریٹ ہیں لیکن ہم بطور عام آدمی پی ایم ڈی سی کے خاتمے اور پی ایم سی کے قیام میں تو ایک سیاسی جنگ و جدل دیکھ رہے ہیں لیکن پولیو کے مکمل خاتمے اور عام سی صحت میں قیام کہیں نہیں۔ نہ ہم ڈاکٹر ظفر مرزا کے ڈریپ فارمیسی کونسل اور نرسنگ کونسل کو بحیثیت عام آدمی انجوائے کررہے ہیں! ڈر لگتا ہے کیونکہ صحت اور تعلیم کے مافیا کا اژدھا کسی کے قابو میں نہیں۔ انصاف کے بعد یہ دونوں معاشرے کی بنیادی ضرورتیں نہیں کیا؟ یہاں بھی کیا وزیراعظم آکر لڑیں؟ کیا سیاسی موسم سے لطف اٹھانا صرف پارٹیاں بدلنے والوں ہی کا مقدر ہے؟ ایک عمیق نظر ادھر بھی پاکستان سٹیزن پورٹل سے اداروں میں بیٹھے کچھ ’’تیز لوگ‘‘ شکایات کو اپنا رنگ دے کر فریقین سے کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ کیا ایسے نادان مافیا کا سدباب کسی وزیر کے پاس ہے یا اس محاذ پر بھی اکلوتا وزیراعظم ہی لڑے؟

ایک ’’غیر ضروری‘‘ بات کرکے آگے چلتے ہیں، پچھلے دنوں گوجرانوالہ میں ایک سرکاری ملازم کی دورانِ ڈیوٹی حرکتِ قلب بند ہو گئی، اُس کا بیٹا یہ سن کر سیالکوٹ سے چلا تو اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ تیسرے روز وہ ڈینٹل ڈپارٹمنٹ لاہور میں پنجاب کے سب سے بڑے اسپتال پہنچتا ہے، کوئی منہ نہیں لگاتا۔ میں ایم ایس کو درخواست کرتا ہوں، مریض داخل ہو جاتا ہے، مریض کے ساتھ قصائیوں سا سلوک شروع ہو جاتا ہے۔ وہاں ہی اسے ایک اسسٹنٹ پروفیسر ملتا ہے جو کہتا ہے آپ کا یہ تکلیف دہ علاج پرانی تکنیک ہے، مجھے پرائیویٹ اسپتال میں ملئے، بغیر تکلیف علاج ایک دن میں آپریشن دوسرے دن چھٹی۔ ایسا ہی ہوا اسی وارڈ کے سرکاری ڈینٹل سرجن کو ادھار اٹھا کر سوا لاکھ دیا، پس بنیادی سہولت اور سرکار سے ’’حق‘‘ مل گیا۔ کوئی بتلائے گا کہ کس نے استحقاق کا لطف اٹھایا؟ وہ الگ بات ہے کہ یہاں بھی امورِ صحت کا قلم دان ایک ڈاکٹر کے پاس ہے۔

وزیراعظم کے اکیلا بھی مافیا سے لڑنے کا سننے کے علاوہ جی تو اس بات پر بھی خوش ہوا جب چیئرمین نیب نے کہا ’’ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے‘‘ لیکن تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب ہر کسی کو اکیلے اکیلے لڑنا پڑتا ہے مگر کپتان اکیلے کیوں، ٹیم کیوں نہیں لڑتی؟ نہیں لڑتی تو پہلے ٹیم ہی سے کیوں نہ لڑ لیا جائے؟ رد و بدل کیوں نہیں؟ اسد عمر کبھی عمران خان کے بعد تحریک انصاف کا ہردلعزیز چہرہ تھا مگر اپنے ہی دام میں صیاد آگیا کیونکہ معاشی و سیاسی جادو بیانی عملی جامہ نہ پہن سکی بہرحال دوبارہ وکٹ پر لانا خوش آئند ہے اور حسبِ عادت توقع ہم نے بھی باندھ لی ہے کہ وزارتِ منصوبہ بندی میں اب منصوبے ہوں گے، سراب نہیں تاہم انجوائے کی امید کی ہمت نہیں ہے۔

مولانا مارچ کے دوران جب شعلہ بیاں وزرا میں ہلکی سی شیریں بیانی سنائی دی تو ہم یہ سمجھے اب سیاسی تلخیاں کم اور ویلفیئر زیادہ ہوگی لیکن ہم کم بخت انجوائے کا سوچ ہی رہے تھے کہ محترم وزیراعظم نے ایک تقریر میں کہہ دیا تحریکی مراد سعید سے ہونے چاہئیں گویا ہماری مرادیں پھر بھسم۔ ہم یہ سمجھے کہ نواز شریف پر آئے اصولی عدالتی فیصلوں کے بعد سابق صدر آصف زرداری کو بھی ریلیف ملے گا مگر گُرو جی نے درست ہی لکھا کہ ’’وہ سوتیلا ہے‘‘ اور کچھ انجوائے ہو نہ ہو گویا مردِ حر سے ’’مردِ سوتیلا‘‘ کی مسافت کی سائنس میں بہت اسباق ہیں کہ ہمیشہ سے کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے، جسے ’’انجوائے‘‘ کیا جا سکتا ہے۔ گویا ’’عشق کو زعمِ پارسائی ہے؍ حسنِ کافر! تری دہائی ہے‘‘۔

بہرحال ہم یاس و آس کے بیچ میں کھڑے عوام تو اس سیاسی موسم سے جمہوری لطف اٹھانے سے قاصر ہیں جاناں!