موت دروازے پر دستک دے رہی تھی....

December 01, 2019

یہ4جولائی 1959ء کا واقعہ ہے۔ مَیں گورنمنٹ ہائی اسکول ظفر وال (ضلع نارووال) سے میٹرک کا امتحان دے کر اپنے چچا، عبدالغفور سلہریا کے پاس جہلم چلا گیا تھا۔ چچا جان محکمۂ جنگلات میںہیڈ کلرک تعینات تھے۔ جہاں آزاد کشمیر سے لکڑیاں بہ ذریعہ دریا، جہلم شہر لائی جاتی تھیں۔ یہ تمام لکڑیاں گٹھوں کی شکل میں باندھ کر دریا میں ڈال دی جاتی تھیں اور ان پر سات آٹھ افراد بٹھادیئے جاتے تھے،پھر یہ افراد، آزاد کشمیر سے جہلم تک یہ لکڑیاں لاتے۔ یاد رہے،جہلم لکڑی کی بہت بڑی منڈی تھی۔ محکمۂ جنگلات کے دفتر کے باہر کُھلے میدان میں ملازمین کے سرکاری کوارٹرز تھے، جہاں دفتری اسٹاف اور فیلڈ اسٹاف سمیت دیگر ملازمین کی رہایش تھی۔ کوارٹرز کا ایک حصّہ دریائے جہلم کے کنارے اور دوسرا گرائونڈ کے آخری کنارے پرتھا۔ اسٹاف کوارٹرز میں تمام ملازمین اپنے بیوی بچّوں سمیت رہتے۔

ان ہی میں ایک کوارٹر میں چچا جان عبدالغفور سلہریا اپنی فیملی کے ساتھ مقیم تھے۔ مَیں بھی ان کے ساتھ ہی رہایش پزیر تھا۔ مرکزی دفتر کے شمال کی جانب دریائے جہلم پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں تھا۔ قریب ہی آم کے درختوں کا ایک بہت بڑا باغ بھی تھا۔ آموں کے موسم میں اس باغ سے تمام ملازمین فائدہ اٹھاتے۔ دفتر سے نیچے کی طرف تھوڑے فاصلے پر پیر بابا کرم شاہ صاحب کا دربار بھی دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے اور دریا کا پانی دربار کی دیواروں سے ٹکرا کر گزرتا تھا۔ جہلم شہر کے شمالی محلّے سے لے کر ریلوے پُل تک دریا کے ساتھ ساتھ گزرنے والی سڑک کو’’ ٹھنڈی سڑک‘‘ شاید اسی لیے کہتے تھے کہ یہ دریا کے بالکل ساتھ کنارے کنارے گزرتی تھی۔

مجھے یہاں آئے زیادہ عرصہ نہیںہوا تھا۔ معمولاتِ زندگی ٹھیک تھے کہ یکم جولائی1959ء سے شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مون سون کی بارشوں کا یہ سلسلہ آزاد کشمیر اور پاکستان بھر میں جاری تھا۔ چار روز سے متواتر ہونے والی بارش کسی طور رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی، جس کے باعث دریاکا پانی چڑھنے لگا، جب سیلابی کیفیت پیدا ہوئی، تو کوارٹرز میں رہنے والے تمام اسٹاف کو، مع بیوی بچّے، محکمہ ٔ جنگلات کے دفترDFO شفٹ کردیا گیا، جب کہ ان کا تمام سامان کوارٹرز ہی میںرہ گیا۔

جب تمام لوگ دفتر شفٹ ہوگئے، تو تھوڑی ہی دیر میں دیکھتے ہی دیکھتے دریا کے بپھرے ریلے نے اسٹاف کوارٹرز سمیت آس پاس کی تمام زمینیں مکمل طور پر غرقاب کردیں، تمام کوارٹرز مع سامان نیست و نابود ہوگئے۔ محکمہ ٔ جنگلات کا دفتر چوں کہ خاصی اونچی جگہ پرتھا، اس لیے فی الحال وہاں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ تباہی کا یہ تمام منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ شام ڈھل چکی تھی۔ خواتین، مرد اور بچّوں سمیت 65,60افراد دفتر میں موجود تھے۔ سیلابی پانی دفتر کے چہاراطراف پھیل چکا تھا اور دفتر کی عمارت ایک جزیرے کا منظر پیش کررہی تھی۔ آہستہ آہستہ پانی بڑھتے بڑھتے سیڑھیوں تک پہنچ گیا۔ یہ غنیمت تھا کہ ٹیلی فون اُس وقت تک کام کررہا تھا۔

ہم نے تمام متعلقہ اداروں کو فون کیے کہ کسی طرح ہماری مدد کی جائے۔ جواب میںہرطرف سے یہی جواب موصول ہوا کہ ’’آپ بے فکر رہیں، کشتیاں آرہی ہیں۔‘‘ تاہم، کسی طرح کی کوئی امداد کہیں سے نہ آئی۔ ہم بے یارومددگار بس اللہ تعالیٰ ہی کے حضور گڑگڑا رہے تھے کہ ’’یااللہ! ہمیں اس طوفان سے بچا۔‘‘رات تقریباً9 بجے پانی دفتر کے اندر داخل ہونا شروع ہوگیا، تو ہم لوگ میزوں پر بیٹھ گئے۔ دفتر میں کھانے کو بھی کچھ نہ تھا۔ تمام افراد بھوکے پیاسے طوفان میںگِھرے امداد کے منتظر تھے۔ پھر کمروں میں پانی بھر جانے کی وجہ سے ٹیلی فون کا نظام بھی معطّل ہوگیا۔ غرض یہ کہ اس طوفان نے سب کچھ ملیا میٹ کردیا تھا۔ دریا میں بہہ کر آنے والی لکڑی کی بڑی بڑی گیلیاں(LOGS) ٹکرا ٹکرا کر تباہی مچارہی تھیں۔

تاہم، اللہ تعالیٰ کا خاص کرم یہ ہوا کہ جدھر سے دریا کا پانی آرہا تھا، وہاں چوں کہ آموں کا ایک بڑا باغ تھا، تو زیادہ تر لکڑیاں آموں کے باغ میں پھنستی جاتی تھیں، کچھ آموں کے درختوں سے ٹکرا کر اِدھر اُدھر ہوجاتی تھیں۔ اس طرح قدرتی طور پر دفتر اب تک محفوظ تھا۔ تاہم، پانی بدستوراوپر بڑھتا چلا جارہا تھا، ہم سب اللہ تعالیٰ سے گڑگڑاگڑگڑا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ اپنے گناہوں کی بخشش کے طلب گار تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ پانی ہمارے سروں تک آگیا۔ ہم سب لوگ عمارت کی چھت پر چلے گئے۔ مگر ہمیں پتا تھا کہ وہاں سے آگے بچائو کا کوئی راستہ نہیں۔ باہر کی دنیا سے ہمارا رابطہ ختم ہوچکا تھا اور ہم سب اِک دریائی طوفان میں بری طرح گِھرے ہوئے تھے۔ آخر رات تین بجے کے قریب اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائوں کو قبولیت بخشی اور پانی آہستہ آہستہ نیچے اترنا شروع ہوگیا۔

اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں سن لی تھیں۔ ہمیں معاف کردیا تھا۔ مگر وحشت و دہشت سے ہم سب نیم جاں تھے۔ آپ اس خوف ناک منظر کا اندازہ لگائیں کہ دفتر کی عمارت کے چاروں طرف سے پانی کی خوف ناک لہریں شور مچاتی ہوئی گزر رہی تھیں۔ ساتھ ہی لکڑیوں کے بڑے بڑے ٹکڑے بھی آآکے ٹکرا رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہماری عمارت آخر وقت تک محفوظ رہی۔ صبح آٹھ بجے تک پانی دھیرے دھیرے اتر چکا تھا۔ مگر اپنے پیچھے ہر طرف تباہی کی داستان چھوڑ گیا۔ دریا کے ساتھ ساتھ جہلم شہر بھی مکمل تباہی وبربادی کا منظر پیش کررہا تھا۔

تاہم، انتہائی حیرت کی بات یہ تھی کہ پیر بابا کرم شاہ کا مزار، جودریا کے عین کنارے آباد ہے۔ سیلاب کے دوران اگرچہ مکمل طور پر پانی میں ڈوب چکا تھا، لیکن جب پانی اترا، تو سب یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ مزار کا اندرونی حصّہ مکمل طور پر محفوظ اور صاف و شفّاف تھا۔ حالاں کہ اس طوفان نے آدھا جہلم الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ ہم تمام لوگ دوسرے دن5جولائی1959ء کودفتر سے باہر نکلے، تو بالکل خالی ہاتھ، بے سروسامانی کی حالت میں تھے۔ اسٹاف کوارٹرز صفحۂ ہستی سے مٹ چکا تھا۔بہرحال، حکومت نے شاید متاثرہ لوگوں کی امدادشروع کردی تھی۔ آج کل ہم مظفر آباد،آزاد کشمیر میں رہائش پزیر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کرم سے آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔

(عبدالواحد سلہریا، ریٹائرڈ انجینئر، شوکت لائن، مظفر آباد، آزاد کشمیر)