زراعت اور وزیراعظم

November 30, 2019

زراعت کو ہماری اقتصادیات میں جس طرح ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح گندم، چاول، گنا، کپاس ایسی نقد اجناس ہیں جن پر ہمارا زرعی شعبہ کھڑا ہے۔ ان دنوں گنے کی کٹائی اور شوگر ملوں کا سیزن ہے دوسری طرف گندم کی بوائی آخری مراحل میں ہے اور نیشنل فوڈ سیکورٹی میں ان دونوں اجناس کا بڑا حصہ ہے۔ اس ضمن میں عوام کی قوتِ خرید کو بھی مدنظر رکھنا ہے، مِل مالکان کو بھی دیکھنا ہے اور کاشتکاروں کو بھی ان کی محنت کا معاوضہ ملنا ضروری ہے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس ضمن میں یہ نہایت حوصلہ افزا بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گنے کے کاشتکاروں کو فصل کی فروخت اور اس کے مناسب معاوضوں کے حوالے سے گزشتہ چند برسوں کے دوران پیش آنے والی مشکلات کو ملحوظ رکھتے ہوئے گنے کی قیمت مقرر کرنے اور اسے یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ چینی کی قیمت میں استحکام لانے پر زور دیا ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم نے صوبوں کو گندم اور چینی کے حوالے سے عملی اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کاشتکاروں کو پورا وزن اور پوری رقم ادا کرنے پر بھی زور دیا۔ اس وقت مارکیٹ میں چینی اور آٹے کی پیدا کردہ خود ساختہ قیمتوں کے تناظر میں منعقد ہونے والے اجلاس نہ صرف بروقت ہیں بلکہ گندم اور چینی کی قیمتوں میں استحکام اور اعتدال لانے میں دور رس نتائج کے حامل ثابت ہوں گے تاہم مستقبل میں ممکنہ غذائی کمی کا معاملہ انتہائی تشویشناک اور غور و فکر کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کا متقاضی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے بھی اس ایشو سے نمٹنے کے لئے حکومت کے پُرعزم ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے تاہم ہمیں بلاتاخیر اس سے آگے کا سوچنا ہے۔ ملک میں ہر متعلقہ زرعی ادارہ فعال ہے۔ پالیسی ساز اداروں کو ان کے ساتھ مل بیٹھ کر آئندہ کی حکمت عملی طے کرنی چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998