جگ ہنسائی کے کاروبار اور بے خبری

December 08, 2019

تحریر:روبینہ خان۔۔۔ مانچسٹر
فلموں کی کہانیاں، الف لیلوی داستانیں، افسانے اور ناول کی کہانیاں حقیقت سے ہی مستعار لی جاتی ہیں۔ مبالغہ آمیزی اور گلیمر کے اضافے کےساتھ خیر و شر کی کشمکش میں آخر بھلائی جیت جاتی ہے ۔دولت اور عیاشی کا ڈراپ سین ہوکر رہتا ہے۔واقعات کی علت ایک جیسی ہو تو نتائج بھی ہمیشہ ایک سے اور معلوم ہوتے ہیں۔علی بابا چالیس چور کی کہانی میں سردار نے دولت چھپا کر پہاڑوں اور غاروں میں رکھی۔کہانیاں بھی سائنٹیفیک ہوتی ہیں۔ فطرت کے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹتی۔اچھا کرو گے تو آج نہیں تو کل اچھا ہی ملے گا ،یہ عالمگیر اصول ہی رہے گا۔ لیکن اگر برا کرو گے تو کہیں نہ کہیں سے کوئی ایسا کردار یا مرجینا آجائے گی جو آپ کےگھڑوں میں آگ لگا دے گی۔بے نامی جائیدادیں دوسرے ملکوں میں چھپا کررکھیں جارہی ہیں۔ برطانیہ میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال کالے دھن سے حاصل کی گئی تقریبا 90 ارب پاؤنڈ کی رقم کو سفید کیا جاتا ہے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔برطانوی حکومت نے 31 جنوری دو ہزار اٹھارہ کو ان ایکسپلینٹڈ ویلتھ آرڈر کا قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت برطانیہ میں مقیم غیر ملکی افراد سے برطانیہ ان کے اثاثوں کے بارے میں پوچھ سکتا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے اسی قانون کے تحت پاکستان کی کاروباری شخصیت اور ان کی فیملی سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم اور اثاثوں کی فراہمی کے عوض تصفیہ کرنے کی تصدیق کی ہے جبکہ اس شخصیت کی جانب سے جو بیان ہے اس کے مطابق ان کا خاندان برٹش سیٹیزن ہے . اور وہ اپنی دولت پاکستان لا رہے ہیں۔گویا یہ مجبوری کے تحت نہیں بلکہ قومی محبت کے باب میں یہ عمل کیا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں بلاول بھٹو کے بیان کی بہت ہنسی اڑائی جاتی رہی کہ "بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے اور زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے "انداز کی وجہ سے بیچارہ غریب(غریب کا لفظ محاورتا استعمال کیا گیا ہے)مارا گیا۔ورنہ جو بات وہ کہہ رہا ہے کہ علت اور معلول کی ہے۔ سورج کی روشنی آپ کو حرارت ہی دے گی۔ زیرزمین حرارت بڑھے تو زلزلہ ہی آئے گا ۔بارش ہوگی تو پانی آئے گا۔ بڑا لالچ ہوگا تو بڑی جنگ ہنسائی ہوگی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دولت حاصل کرنے کے بعد بھی عزت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دنیا کے ہر اسکول کالج میں تعلیم، عزت اور ایمانداری کا سبق پڑھایا جاتا ہے تعلیم کے نتیجے میں بہترین معاشرے کا خواب دکھایا جاتا ہے۔ پڑھائی کے دوران جو بچے پر اسرار سرگرمیوں میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور پیسہ کمانا شروع کر دیتے ہیں ماں باپ اس وقت نوٹس نہیں لیتے ۔سمجھتے ہیں کہ بچوں نے کوئی کام تو شروع کیا لیکن شہرت اور سلیبریٹی کلچر کا چسکا چالیس چوروں کے گروپ میں شامل کردیتا ہے۔آمدنی والے گھرانوں کے نوجوان لڑکوں کے پاس برینڈڈ گاڑیاں کہاں سے آرہی ہیں . کمپنیوں کے ساتھ فراڈ کر کے گاڑی نکلوانے والوں کے لئے مرجینا جیسے کرداروں کی آجکل ضرورت نہیں رہی ان کے لئے فیس بک نے یہ موقع فراہم کردیا ہے فیس بک پر شو اف کرتے ہیں اور پکڑے جاتے ہیں۔جیل کی ہوا کھا کر واپس آنے کے بعد معاشرے میں منہ پر عزت اورپیٹھ پیچھے نفرت کی جاتی ہے لیکن دہرا معیار ایسے لوگوں کو فیس سیونگ کا موقع دیتا ہے ۔ جو لوگ اصلی برینڈز استعمال نہیں کرسکتے ان کی تسلی کے لیے جعلی کاروباری لوگ سامنے آرہے ہیں ۔حال ہی میں مانچسٹر میں ٹریڈنگ اسٹینڈرڈ نے ایسے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے اور انکے کاروبار بند کرکے جرمانا کیا گیا ہے۔جبکہ پکڑے جانے والے ملزم نے کہا کہ وہ تو لوگوں سے مال خریدتا ہے اس کو تو بڑے بڑے برانڈز کے نام ہی نہیں پتا یہ ہیں کیا!! ظاہر بات ہے کہ دو نمبر چیزیں بیچنے والے کاروباری کو برینڈز کاپتہ نہ ہو ، یہ تو ممکن نہیں۔اس پر کیا کہا جائے،" خبر میں کیا رکھا ہے جو بےخبری میں نہیں ہے عوام الناس کی زندگی دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی پاکستان واپسی کی وجہ سے بھی بہت مشکل میں ہے۔بعض افراد کو تو کسی پل چین نہیں آرہا کہ کوئی انہیں بتا دے کہ ہونا کیا ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف جانتے بوجھتے بھی یہی پوچھتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا. اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے لہذا وقتا فوقتا جب بھی جیل پہنچے ، وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔اس سے بڑھ کر ملک سے باہر کی کامیاب اڑان بھرچکے۔ابھی آرام کریں گے کافی عرصے سےھیرڈز اسٹورز سے شاپنگ وغیرہ نہیں کی ہوگی تو وہ بھی ضروری ہے جس طرح جیل میں نہیں رہ سکتے ہیں اسی طرح وطن سے دور رہ نہیں پائیں گے۔ دنیا مختلف رنگوں سے بنی ہے۔عام انسان اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جھوٹ اور لا لچ کا راستہ اختیار کرتا ہےلیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی سچ کے رنگوں میں رنگی ہوتی ہے۔ انسانی سوچیں ، انسانی روح کو رنگ دیتی ہیں۔ صوفیانہ کلام میں "موہے رنگ دے" ،کی اصطلاح سچائی کا رنگ ہے جو سچا ہے لیکن نایاب ہے۔