نظریاتی کشمکش اور طلبہ

December 14, 2019

تحریر:صادق کھوکھر۔۔۔ لیسٹر
چند دن قبل طلبہ کے ایک گروہ نے سرخ سویرے کا نعرہ بلند کر کے ملک میں ہلچل مچا دی۔ ذرائع ابلاغ میں اس کی گونج سنی گئی۔ تبصرے اور کالمز شائع ہوئے لیکن ان تبصروں اور تجزیوں میں زیادہ تر اظہارِخیال اسٹوڈنٹس یونین کے مطالبے پر ہوا۔ طلبہ تنظیموں کے نظریاتی پسِ منظر، جدو جہد اورکشمکش کے حوالے سے بہت کم بات ہوئی۔ قیامِ پاکستان کی تحریک میں سب سے بڑا کردارمسلما سٹوڈنٹس فیڈریشن کا تھا لیکن آزادی کے بعد وہ عملا’’معدوم ‘‘ہوتی گئی جس کے بعد بائیں بازو کے طلبہ آگے بڑھے۔ درحقیقت کمیونسٹ تحریک برِصغیر پاک و ہند میں تقسیمِ ہند سے قبل ہی جڑ پکڑ چکی تھی۔ پاکستان کے قیام کے چند ماہ بعد سجاد ظہیرکمیونسٹ پارٹی کے ایک فیصلے کے تحت بھارت سے پاکستان تشریف لائے تاکہ مملکتِ خدا داد کو کمیونزم کے سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ انہوں نے اپنے ہم خیال حضرات کو منظم کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح کمیونسٹ پارٹی پاکستان میں بھی متحرک ہو گئی جس نے ڈیموکریٹک ا سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام طلبہ میں بھی کام کرنا شروع کر دیا۔ ڈی ایس ایف نے جلد ہی طلبہ میں اپنا مقام بنا لیا۔ کراچی اور سندھ کے تعلیمی اداروں کی اسٹوڈنٹس یونین میں اسے کامیابیاں ملنے لگیں۔ تقریبا اسی دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کی سرپرستی جماعتِ اسلامی کر رہی تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کو شروع میں ہی ہونہار طلبہ ملے جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد، خرم مراد، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، ڈاکٹر منظور احمد اور ڈاکٹر عمر چھاپرا جیسے نامور اسکالر طالب علمی دور میں ہی جمعیت کے دست و بازو بنے تھے لیکن اس زمانے میں طلبہ یونین پر بائیں بازو کا قبضہ تھا۔ حتیٰ کہ مشرقی پاکستان میں بھی وہی چھائے ہوئے تھے۔ وہاں چھاترو لیگ بڑی منظم تھی۔ اس لحاظ سے پورے پاکستان میں بائیں بازو کے عناصر ہی مسلط تھے۔ پھرجب 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی۔ تو ان کے اسٹوڈنٹس ونگ ڈیموکریٹک کو بھی اپنا کام لپیٹنا پڑا۔ البتہ بائیں بازو کے طلبہ نے اپنے لیے نیا پلیٹ فارم چن لیا۔ یعنی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن۔ یہ تنظیم دراصل پہلے سے قائم تھی جس میں لیفٹ کے طلبہ شامل ہوتے گئے۔ این ایس ایف کا عروج 1970 تک قائم رہا۔ ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کے بڑے لیڈروں میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ، ڈاکٹر سرور، معراج محمد خان، فتحیاب علی خاں، امیر حیدر کاظمی، حسین نقی، نفیس صدیقی اور امتیاز عالم وغیرہ شامل تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ بھی رفتہ رفتہ آگے بڑھتی گئی۔ اس نے سب سے پہلا بڑا معرکہ ایوبی دور میں 1961 میں پنجاب یونیورسٹی میں سر کیا۔ پروفیسر عثمان غنی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوگئے۔ دو سال بعد بارک اللہ امید وار بنے۔ جنہیں الیکشن سے چند دن قبل ہی یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا۔ نتیجتاً تمام امیدوار الیکشن سے دستبردار ہوگئے۔ انہوں نے یونیورسٹی آرڈیننس منسوخ کرنے کے لیے بڑی جرأت سے آمریت کے خلاف مہم چلائی۔ اس زمانے میں بارک اللہ کا نام پورے مغربی پاکستان میں گونجتا تھا۔ رفتہ رفتہ اسلامی جمعیت طلبہ بھی اپنے قدم جماتی گئی۔ کراچی یونیورسٹی میں بھی اس کے امیدوار منتخب ہونے لگے جن میں ڈاکٹراعجازشفیع گیلانی، ڈاکٹر زاہد حسین بخاری، عبدالملک مجاہد، شفیع نقی جامعی، حسین حقانی اور محمود غزنوی وغیرہ معروف ہیں۔ ان حضرات نے عملی زندگی میں بھی کافی نام کمایا۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں سے منتخب ہونے والے حافظ ادریس، جاوید ہاشمی، حفیظ اللہ نیازی، فرید پراچہ، عبدالشکور، لیاقت بلوچ، حافظ سلمان بٹ، راجہ جہانگیرخاں، احسن اقبال، محمود الرشید، اعجاز چوہدری، امیرالعظیم اور احمد بلال محبوب وغیرہ عملی زندگی میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ این ایس ایف دھڑے بندیوں اورتربیت کی کمی کے باعث زوال کا شکار ہوئی۔ یہ دونوں خرابیاں اشتراکی ممالک کی تقلید کے باعث پیدا ہوئیں۔ معراج محمد خان کا گروپ چین نواز تھا جب کہ امیر حیدر کاظمی روس نواز طلبہ کی قیادت کرتے تھے۔انہوں نے خود کوئی لٹریچر تیار نہیں کیا۔ سارا لٹریچر کمیونسٹ ممالک سے ترجمہ ہو کر آتا تھا جو ملکی حالات سے ہم آہنگ بھی نہیں ہوتا تھا۔ معروف اشتراکی دانشور ڈاکٹر منظور اعجاز اپنے کالم بعنوان ’’برصغیر: بائیں بازو اور دیگر اصلاحی تحریکوں کا مرگھٹ‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’اس علاقے کے ترقی پسندوں نے شاعری اور ادب کی حد تک تو بائیں بازو کے افکار کو متعارف کروایا لیکن نظریاتی پہلو سے ایسا فکری نظام نہیں دیا جو معاشرے کے مختلف شعبوں میں متبادل نظام کو قابل عمل بنانے میں مددگار ہو۔ اس کے برعکس مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلامی نظام کا مکمل ضابطہ حیات پیش کیا ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ بھی بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے‘‘۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور این ایس ایف کے علاوہ جو تنظیمیں میدان میں آئیں ان میں پختون ا سٹوڈنٹس فیٖڈریشن، پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلما سٹوڈنٹس فیڈریشن، بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، انجمن طلبہ اسلام ، جمعیت طلبہ اسلام، آل پاکستان مہاجراسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جئے سندھ اور امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن وغیرہ قابلِ ذکر ہیں لیکن یہ سب علاقائی، شخصی یا مسلکی نوعیت کی تنظیمیں تھیں۔ بدقسمتی سے ان علاقائی تنظیموں نےملک کو کافی نقصان پہنچایا۔ کیوں کہ یہ عصبیت اور مسالک کو فروغ دیتی ہیں۔ ملک میں اس وقت امن، وحدت، اخوت اور بھائی چارے کی ضرورت ہے۔ عدل و انصاف، تعلیم و تربیت اورمحنت و جدو جہد کی ضرورت ہے۔ آج طلبہ کا ایک گروہ پھراشتراکیت کا علم بلند کر رہا ہے لیکن اس نعرے میں اب جان نہیں رہی۔ سوشلزم اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ ملک کو اصل خطرہ سرخ تحریک سے نہیں۔ بلکہ اصل خطرات لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تنظیموں سے ہے۔ کاش ہمارے ملک کے نونہال امن و سلامتی کےلیے آگے بڑھیں اور امن و اخوت اور بھائی چارے کا پرچم تھامیں اور اپنی توانائیاں ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیےصَرف کریں۔ یونین سازی خطرہ نہیں البتہ رویوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بار ایسوسی ایشن پر بھی پابندی لگانا پڑے گی، جھگڑے تو قومی اسمبلی میں بھی ہوتے ہیں، کس کس ادارے پر پابندی لگائیں گے۔