علم نفسیات .... رویے اور ذہن کی سائنس

December 15, 2019

محبت، نفرت اور خوف کے بنیادی جذبات پر انسان کے مزاج کاآئینہ تشکیل پاتا ہے۔ علم نفسیات اب فرائیڈ کے نفسیاتی تجزیے تک محدود نہیں رہا بلکہ کلینکل سائیکالوجی اور ایموشنل انٹیلی جنس کی صورت ڈھل چکا ہے۔

نفسیات (Psychology) رویے اور ذہن کی سائنس ہے کہ آپ کا شعور و لاشعور کیسے کام کرتا ہے اور کن باتوں سے ہمیں غصے اور ہمدردی کے جذبات آتے ہیں، جو خالصتاً حیاتیاتی کیمیاوی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہمارے نیورونز، برقی شعاعوں سے پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں جس کا تعلق گنتی سے ہوتا ہے،اس لیے ہمارا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے جو ایک ہی کلک پر متعلقہ مواد اپنے ڈیٹا بیس سے ہمارے پاس منتقل کرتا ہےاور ہم کیمیاوی ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب نیوروبرین سائنس اور کلینکل سائیکالوجی ایک صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔پاکستان کے 90فیصد خواتین و حضرات ایک لایعنی خوف کے شدیدنفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں لیکن ماننے کو تیار نہیں۔

نفسیات کی وسعتیں

اس کرہ ارض میں مقیم جتنے بھی آدم و حوا کے رویوں اور برتاؤکے رنگ ہیں، اتنے ہی نفسیات کے رنگ ہیں۔ مزاج کی یہ سائنس تجرباتی نفسیات سے شروع ہوکر آج حیاتیاتی یعنی نیورو سائیکالوجی،رویہ جاتی یعنی ’’نفسیاتی مزاج شناسی‘‘(Psychological behaviourism)، ذہنی نفسیات (Cognitive psychology)، سماجی نفسیات، شخصی نفسیات( Personality psychology)، لاشعوری دماغ اور نفسیات، حوصلہ افزائی کی نفسیات، ڈویلپ مینٹل سائیکالوجی، بیہیوریل جینیٹکس، دماغی صحت کیلئے پروفیشنل سائیکالوجی، سائیکوڈائنامک سائیکو تھراپی، تعلیمی نفسیات، انڈسٹریل اینڈ آرگنائزیشنل سائیکالوجی اور ہیلتھ سائیکالوجی تک جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی، معاشی، لسانی، گروہی،بین التعلقات جیسے کئی شعبوں میں نفسیات کا دائرہ بڑھ کر معاشرتی علوم سے کہیں آگے سائنسی علوم میںداخل ہوگیا ہے۔

سائیکالوجی ڈگری کی پانچ اقسام

موجودہ ٹیکنالوجی اور حیاتیات کے سنگم سے اب علم نفسیات سائیکو تھراپی لفظ میں ڈھل گیا ہے، جہاں میڈیکل اور ذہنی نفسیات کی صورت آپ بہترین ماہرِ نفسیات کے مرتبے پر فائز ہوسکتے ہیں۔سائیکالوجی میں ایسوسی ایٹ ڈگری پاکر آپ بزرگوں کی عیادت، دیکھ بھال و نگہداشت اور اشک شوئی کرنے والے’’ ری ہیبلی ٹیشن ورکر ‘‘ بن سکتے ہیں۔ بی اے یا بی ایس جیسی بیچلر ڈگری کے حصول سے’’کیریئر کونسلر‘‘،ایم اے یا ایم ایس جیسی ماسٹر ڈگری پاکر’’ڈرگ اینڈ الکحل اسپیشلسٹ‘‘ یا پی ایچ ڈی کرکے پروفیسر اور ڈاکٹر آف سائیکالوجی کی سند حاصل کرکے آپ ’’سائیکو تھراپسٹ‘‘ بن سکتے ہیں۔

سائیکالوجی میں محفوط کیریئر

سرِدست ہمارے پاکستانی ڈاکٹروں بالخصوص خواتین میں سائیکالوجی کو بطور میجرز سبجیکٹ لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس میں ہمارے مزاج شناس ماہرین میں سے خواتین کی اکثریت کلینکل اور بیہیوئر سائیکالوجی میں کیریئر بنانے کو ترجیح دے رہی ہے۔ اس میں بچوں کی نفسیات کے لیے الگ ماہرینِ نفسیات ہے۔ سماجی رویوں کو مہذب بنانے کا کام بھی سماجی نفسیات دانوں کے ذمے ہے۔

اگر آپ اپنی اور انسانوں کی نفسیات جانتے ہیں تو آپ بلا خوف و خطر موٹی ویشنل اسپیکر، سیلز نمائندہ، ایڈورٹائزنگ ایجنٹ،سائیکاٹرک ٹیکنیشن، مشیرو صلاح کار، پروبیشن اینڈ پیرول افسر، ادیب و شاعر، مارکیٹ ریسرچر، چائلڈ کیئر ورکر، لیبارٹری اسسٹنٹ، سوشل سروسز اسپیشلسٹ، ٹیچر، لیکچرار، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر جیسے محفوظ کیریئرز کی پاکستان اور بیرونِ ملک ضمانت پاسکتے ہیں۔

دنیا جس تیزی سے آگے جارہی ہے،انٹرنیٹ نے معلومات کا سیلاب بہادیا ہے، ایسے میں ہمیں وہ ماہرینِ نفسیات درکار ہوں گے، جو ہماری ذہنی نفسیات کی صورت گری کرکے آٹومیشن انقلاب میں اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حصول میں ہمارے معاون و دست گیر بن کر ابھریں۔

علمِ نفسیات، مستقبل کی تعلیم

انیسویں اور بیسویں صدی کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے عظیم اشتراک سے منسوب کیا گیا لیکن اکیسویں صدی میں طب اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم نے 85فیصد امراض کا علاج دریافت کرلیا ہے۔ جسم میں بوسیدگی کے اثرات کا بھی پتہ چلا لیا ہے۔ یہ احساس دلانے،خود کو آنے والے آٹو وہیکل اور ٹائم مشین کے دور کےلیے ہنرمند بنانے اور دنیا کوآدابِ محبت سکھانے کیلئے نفسیات دانوں کی سب سے زیادہ ضرورت پڑے گی۔