پنجاب کی صارف عدالتوں کا مستقبل

December 22, 2019

اگرچہ غیر معیاری مصنوعات اور تمام قسم کی غیر معیاری خدمات کے خلاف صارفین کی شکایات کے بعد تحفظ ِ صارف قانون کے تحت 2005میں بنائی گئی صارف عدالتوں کی تعداد 17کردی گئی ہے تاہم اندر ہی اندر طاقتور مافیا نے اِن عدالتوں کو بےدست و پا کرنا شروع کردیا ہے۔ پہلے لا اینڈ جسٹس کمیشن کے فیصلہ کو تبدیل کیا گیا اور پھر آہستہ آہستہ یوٹیلیٹی بل بھیجنے اور خدمات فراہم کرنے والے سرکاری محکموں کے خلاف اِن عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں عدالتِ عالیہ میں فائل کی جانے لگیں اور منظم انداز کے ساتھ صارف عدالتوں اور تحفظ ِ صارف قانون کی بغیر کسی ترمیم کیے اختیارِ سماعت کو محدود کیا جانے لگا حالانکہ ہمارے ہمسایہ ممالک میں ایسے قوانین اور عدالتوں کو دوسری عدالتوں کی نسبت بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ تحفظِ صارف قانون میں 10سال گزرنے کے باوجود بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر ایک بھی ترمیم کرنا گوارہ نہ کی گئی حالانکہ وکلا اور عوام کی جانب سے مسلسل اس قانون میں پائے جانے والےخلا کو بذریعہ ترمیم پُر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ مجوزہ ترامیم وزیر قانون پنجاب کو بھیجی گئیں لیکن تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں۔ گوجرانوالہ اور بہاولپور میں صارف عدالتوں کے لیے مخصوص جوڈیشل کمپلیکس تعمیر ہو چکے ہیں لیکن لاہور جیسے بڑے ضلع کے لیے صارف عدالت اپنے جوڈیشل کمپلیکس سےمحروم ہے۔ کرایہ کی عمارتوں کے بجائے لاہور کی صارف عدالت کو سیشن کورٹ جوڈیشل کمپلیکس میں منتقل کر دیا گیا جو صرف دو کمروں پر مشتمل ہے۔ دس برسوں میں صارف عدالتوں کا جو ماحول بنا تھا سیشن کورٹ میں منتقلی کے بعد تباہ و برباد ہو گیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صارف عدالت میں دائرمقدمات کی تعداد ماہانہ تقریباً 30سے 35فیصد تک ہی رہ گئی ہے۔ اربابِ بست و کشاد نے جان بوجھ کر صارف عدالتوں کو عدالتِ عالیہ کے دائرہ کار سے باہر رکھا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے حکومتِ پنجاب ان عدالتوں کی اہمیت کو بوجوہ نظر انداز کررہی ہے۔ ان عدالتوں کے مالی معاملات انتہائی دگرگوں چلے آرہے ہیں جس کی وجہ سے تمام اہلکاروں کو ماہانہ تنخواہیں اور دیگر اخراجات کی ادائیگی بروقت نہیں کی جارہی ہے جس کی وجہ سے کام میں انتہائی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی واحد عدالتیں ہیں جس کیلئے کاپی برانچ اور ناظر برانچ بنائی ہی نہیں گئی ہیں۔ اس لئے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا بنیادی ڈھانچہ ہی مکمل کرنے کی زحمت ہی نہ کی گئی ہے، دوسری عدالتوں کی طرح ان کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہی نہیں ہے۔ ملازمین کی ملازمتوں کو تحفظ ملنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ملازمین کو تحفظ تو درکنار ان کو دیگر عدالتوں کے ملازموں کے برابر بھی نہیں سمجھا جاتا اور طویل عرصہ سے ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ دوسری عدالتوں کی طرح صارف عدالتوں کے ملازمین کو جوڈیشل اور یوٹیلٹی الائونس بھی نہیں دیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں ان عدالتوں سے بھی عوام مایوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ عمومی طور پر اِن عدالتوں میں سیشن جج صاحبان تعینات کیے جاتے ہیں پہلے تو اُنھیں اس کام کو سمجھنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ صارف عدالتوں کے قوانین اور کارروائی سے آشنائی کے بعد وکلا اور صارفین کی شکایتوں سے آگاہ ہو جاتے ہیں تو ان کی تبدیلی کا حکم آجاتا ہے پھر نئے جج صاحب آتے ہیں تو سیکھنے کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح کیسوں میں تاخیر تکنیکی طور پر دیکھی جارہی ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ صارف عدالتوں کی بہتر کارکردگی اور بہتر مستقبل کے لیے عدالتوں، ملازمین اور ماحول کو مدِنظر رکھ کر جامع حکمتِ عملی تیار کئے جانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ انہیں بااختیار بنا کر دیگر عدالتوں کے بوجھ کو کم کیا جاسکے اور یہ عدالتیں بھی صحیح معنوں میں ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اگر معاشروں کو خوشحال رکھنا ہے تو معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کے حقوق و فرائض میں غفلت برتنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے۔ لاہور جیسے بڑے ضلع کے لیے کم از کم دو صارف عدالتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔