مراکش کی تنجیر میڈ بندرگاہ

December 25, 2019

مراکش نے جب افریقہ کی تیز ترین ٹرین کے منصوبے کی بنیاد رکھی تو بادشاہ محمد ششم کو ٹرین کیلئے کچھ نام تجویز کئے گئے جو یورو اسٹار کی طرز پر ’’افریقہ اسٹار‘‘ جیسے ناموں پر مشتمل تھے مگر بادشاہ نے تمام ناموں کو رد کرکے ٹرین کی تیز رفتاری کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ایک نام ’’البراق‘‘ تحریر کیا۔ ’’البراق‘‘ مسلمانوں کیلئے مذہبی لحاظ سے اس لئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ حضور اکرمﷺ اس پر سوار ہوکر چند لمحوں میں معراج پر خالقِ حقیقی سے ملنے گئے۔

350کلومیٹر کی رفتار سے ’’البراق‘‘ مراکش کے شہر تنجیر کی جانب گامزن تھی اور تیز رفتاری کے باعث کھڑکی سے باہر کسی چیز پر نگاہ رکھنا مشکل ہورہا تھا۔ اس سفر کا مقصد تنجیر میڈ کی جدید بندرگاہ جسے افریقہ اور میڈیٹرین کی سب سے بڑی بندرگاہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، کا وزٹ کرنا تھا جس کی دعوت ہمیں تنجیر میڈ پورٹ اتھارٹی نے دی تھی اور ایف پی سی سی آئی کے 20بزنس مینوں کا یہ وفد سینئر نائب صدر مرزا اختیار بیگ کی سربراہی میں سفیرِ پاکستان حامد اصغر خان کے ہمراہ تنجیر جارہا تھا۔ وفد میں مراکش میں ڈیفنس اتاشی بریگیڈیئر (ر) طلحہ الطاف بھی موجود تھے جن کی حال ہی میں مراکش میں تعیناتی ہوئی ہے اور ان کے مطابق دونوں ممالک کے مابین دفاعی شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

رباط اور تنجیر کا فاصلہ 250کلومیٹر پر محیط ہے جو البراق ٹرین کے باعث 50فیصد کم ہوکر صرف ایک گھنٹے 10منٹ رہ گیا ہے۔ 325کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار پر بھی ٹرین اتنی ہمواری سے دوڑ رہی تھی کہ ہمیں بالکل احساس نہیں ہورہا تھا کہ ہم کسی ٹرین میں سفر کررہے ہیں۔ ٹرین میں ہر وہ سہولت موجود ہے جو فضائی سفر کے دوران مہیا ہوتی ہے۔ دورانِ سفر میں ’’البراق‘‘ کا موازنہ پاکستان ریلوے سے کرنے لگا جس کی رفتار اوسطاً 110کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں اور آئے دن حادثات کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جنہوں نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی، آج ترقی کی رفتار میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں، دنیا کے دوسرے ممالک کے حکمراں اپنے شہریوں کو براق پر لے گئے جبکہ ہم ابھی تک پرانے بوسیدہ ریلوے نظام پر سفر کررہے ہیں ۔

’’البراق‘‘ جیسے ہی تنجیر اسٹیشن پر رکی اور ہم ٹرین سے باہر آئے تو شہر کے خوبصورت اسٹیشن کو دیکھ کر ایسا لگا کہ کسی شاپنگ مال میں آگئے ہوں جہاں دنیا کے تمام بڑے برانڈز کے اسٹورز موجود تھے۔ تنجیر پورٹ اتھارٹی کے حکام وفد کا استقبال کرنے کیلئےموجود تھے۔ تنجیر میڈ پورٹ جسے عربی میں میناہ تنجیر بھی کہا جاتا ہے، یورپ سے صرف 15کلومیٹر کے فاصلے پر آبنائے جبرالٹر پر واقع ہے اور اس کا شمار دنیا کی سرِفہرست 18بندرگاہوں میں ہوتا ہے جو 9ملین کنٹینرز، 7ملین پسنجرز اور ایک ملین گاڑیاں ہینڈل کررہی ہے۔ یہ پورٹ مراکش کو دنیا کے 77ممالک اور 180پورٹس سے جوڑتا ہے۔ اس پورٹ سے ملحق فری زونز میں آٹوموبائل، الیکٹرونکس، ایروناٹیکل، ٹیکسٹائل اور سروسز کی 900سے زائد صنعتیں بھی موجود ہیں جہاں 75ہزار سے زائد افراد روزگار سے وابستہ ہیں۔ مجھے جس بات نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ تنجیر پورٹ سے ملحق انڈسٹریل فری زون تھا جہاں کئی فرانسیسی کار مینوفیکچرنگ کمپنیوں نے اپنی انڈسٹریز لگارکھی ہیں جبکہ ایک نےتو افریقہ کا سب سے بڑا پلانٹ لگارکھا ہے۔ سامنے سینکڑوں گاڑیاں بحری جہازوں میں لوڈ ہوکر یورپ اور دیگر ممالک ایکسپورٹ کی جارہی تھیں۔ صرف تنجیر میڈ فری زون کی ایکسپورٹ 8.3بلین ڈالر ہے۔

تنجیر میڈ کے دورے اور شہر میں دن گزارنے کے بعد جب ہم واپس رباط لوٹ رہے تھے اور ٹرین اندھیرے میں اپنی منزل مقصود کی جانب رواں دواں تھی تو میں تنجیر پورٹ کا موازنہ گوادر پورٹ سے کررہا تھا جسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گوادر پورٹ سے ملحق فری زونز میں کوئی قابل ذکر فیکٹری ابھی تک نہیں لگی جبکہ گوادر کی زمینوں پر سٹے بازی کی جارہی ہے۔ گوادر پورٹ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پورٹ پاکستان اور خطے کی تقدیر بدل دے گا اور دبئی ہم سے اس لئے خائف ہے کہ گوادر پورٹ کہیں جبل علی پورٹ کی جگہ نہ لے لے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنگاپور پورٹ اتھارٹی کی ناکامی کے بعد چین کی چائنا اوورسیز پورٹ ہینڈلنگ کمپنی (COPC) بھی گوادر پورٹ کو صحیح طرح آپریٹ نہیں کرسکی ہے۔ گوادر پورٹ پر بمشکل ہی کوئی کنٹینر شپ لنگر انداز ہوتا ہے جبکہ وہاں نصب کچھ کرینیں زنگ آلودہ اور ناکارہ ہوگئیں جنہیں حال ہی میں تبدیل کیا گیا ہے۔

سفیر پاکستان حامد اصغر خان نے دوران سفر ایک دلچسپ بات بتائی کہ مراکش کی قومی فاسفیٹ کمپنی (OCP) جو دنیا میں فاسفیٹ کی سب سے بڑی سپلائر ہے، نے گوادر پورٹ اتھارٹی کو ایک خط تحریر کیا کہ وہ گوادر میں فاسفیٹ پلانٹ لگانے کیلئے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ پروڈکٹ کو وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل ہوسکے جس پر گوادر پورٹ اتھارٹی کی جانب سے جواب موصول ہوا کہ ’’ہمارے پاس پلانٹ کیلئے زمین دستیاب نہیں۔‘‘ اس طرح ہم نے پاکستان میں مراکش کی بھاری سرمایہ کاری کا موقع ضائع کردیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غلط فہمی کا شکار ہونے اور وقت ضائع کرنے کے بجائے تنجیر میڈ پورٹ اتھارٹی کے تجربات سے استفادہ کرکے گوادر پورٹ کو مکمل طور پر آپریشنل کیا جائے۔