افواہوں، بدانتظامیوں، نیب گرفتاریوں میں سال گزر گیا

January 05, 2020

’’ وزیرِ اعلیٰ، مُراد علی شاہ جیل جانے والے ہیں۔ اِن ہاؤس تبدیلی کی تیاریاں مکمل ہیں، بس وزیرِ اعظم کے گرین سگنل کا انتظار ہے۔ صوبے میں گورنر راج لگ رہا ہے، اسلام آباد میں انٹرویوز بھی شروع ہوچُکے۔ کراچی کو وفاق کے کنٹرول میں لیا جا رہا ہے۔‘‘ گزشتہ برس سندھ حکومت اِسی نوعیت کی افواہوں کی زَد میں رہی۔

پھر یہ کہ رہی سہی کسر نیب گرفتاریوں نے پوری کردی، جن سے افواہوں میں بھی جان پڑی۔ اِس ضمن میں سب سے اہم گرفتاری تو صوبے کی حکم ران جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین، آصف علی زرداری کی تھی، تاہم اُن کی بہن اور رُکن صوبائی اسمبلی، فریال تالپور کی حراست بھی اِس اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل تھی کہ اُنھیں سندھ حکومت میں بہت زیادہ اثر و رسوخ کا حامل تصوّر کیا جاتا ہے۔

نیز، سندھ اسمبلی کے اسپیکر، آغا سراج درّانی بھی نیب کے مہمان بنے۔ ان گرفتاریوں سے صوبائی حکومت خاصے دباؤ میں رہی اور اُس کی توجّہ خود کو بچانے ہی پر مرکوز رہی۔ سال کے آخر میں اِن قیدیوں کو عدالت کی جانب سے ریلیف ملنا شروع ہوا، تو حکومت نے بھی سُکھ کا سانس لیا۔ اِس حوالے سے یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ اتنی اہم شخصیات کی گرفتاریوں پر بیانات کی تو بھرمار رہی، مگر سندھ میں عوامی سطح پر چند چھوٹے مظاہروں کے علاوہ کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔

سال کے آخر میں بلاول بھٹّو زرداری نے صوبائی حکومت کے تحت کراچی میں تعمیر کیے گئے چند انڈر پاسز کا افتتاح کیا، جس سے ٹریفک کی روانی میں مدد ملے گی، تاہم اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے، تو سندھ حکومت 2019ء میں عوامی فلاح و بہبود کے بڑے منصوبے شروع نہ کرسکی۔

کراچی میں وفاق کے تحت زیرِ تعمیر’’ گرین لائن منصوبہ‘‘ گزشتہ برس بھی شہریوں کے لیے سوہانِ رُوح بنا رہا، تو اس کے ساتھ ہی صوبائی حکومت کے محض ساڑھے تین کلو میٹر کے’’ اورنج لائن منصوبے‘‘ پر بھی کام رُکا رہا۔ اس ضمن میں سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ’’ وفاق، صوبے کو فنڈز نہیں دے رہا، جس سے مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے‘‘، جب کہ وفاق کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی۔

ایک مرحلے پر وفاق نے کراچی کے لیے فنڈز کا اعلان کرتے ہوئے گورنر کی قیادت میں ایک بورڈ تشکیل دینے کی بات کی، تو سندھ حکومت نے اُسے اٹھارہویں ترمیم کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے صوبے کے معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ یہاں اِس بات کا اظہار ضروری ہے کہ صوبائی حکومت نے امراضِ قلب کے علاج معالجے کے لیے جاری منصوبے کو گزشتہ برس بھی وسعت دی اور کئی مقامات پر نئے یونٹس قائم کیے۔

کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رہا، جس کے دَوران کئی علاقوں سے سرکاری اراضی واگزار کروائی گئی۔ خاص طور پر گزشتہ برس’’ کراچی سرکلر ریلوے‘‘ کی بحالی کے لیے عدالتی حکم پر بڑے پیمانے پر عوام کی املاک گرائی گئیں ،مگر اُس کے بعد منصوبے پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔

صوبے کے سب سے بڑے شہر اور مُلک کے معاشی حَب، کراچی کی صُورتِ حال اِس لحاظ سے قابلِ رحم رہی کہ پی ٹی آئی حکومت، جسے یہاں سے بھاری مینڈیٹ ملا تھا، اِس شہر کے لیے کچھ نہ کر سکی اور سندھ حکومت بھی شہرِ قائد کی تعمیر و ترقّی میں اپنی دِل چسپی عملی طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ سال کے آخری دنوں میں کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ناراض ارکانِ اسمبلی کے باغی گروپ کی تشکیل کی اطلاعات آئیں، جو وزیرِ اعظم، عمران خان کی کراچی میں عدم دِل چسپی پر نالاں تھے۔ سندھ حکومت کی جانب سے فروری میں عوام کے لیے کراچی کے 10 مختلف روٹس پر 200 بسز چلانے کا اعلان کیا گیا، مگر شہری سال کے آخر تک اُن بسز کی دید سے محروم ہی رہے۔

البتہ گزشتہ برس شہر میں عوام کو بہتر سفری سہولتوں کی فراہمی کے لیے کئی نجی ٹرانسپورٹ کمپنیز سامنے آئیں، جن کے مختلف قانونی اور انتظامی اُمور پر انتظامیہ سے تنازعات بھی چلتے رہے۔ تاہم، عام شہریوں، خاص طور پر ملازمت پیشہ خواتین کی جانب سے نجی کمپنیز کی جانب سے فراہم کردہ سفری سہولتوں کا خیرمقدم کیا گیا۔اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے حکومت سے بھی اسی طرز پر گاڑیاں چلانے کا مطالبہ کیا۔

سندھ حکومت کو اِس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ اُس نے نہ صرف یہ کہ تھر کول سے بجلی کی پیداوار کا منصوبہ شروع کیا، بلکہ اُسے کام یابی سے بھی ہم کنار کیا۔ اُسے گزشتہ برس اِس طرح کام یابی ملی کہ تھر کول سے پہلی بار 660 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصّہ بنی۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین، بلاول بھٹّو نے ایک پُروقار تقریب میں اِس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کیا۔

گزشتہ برس کے دَوران کئی ایسے واقعات سامنے آئے، جو سندھ حکومت کی انتظامی صلاحیتوں اور کارکردگی پر سوالیہ نشانات چھوڑ گئے۔ بارشوں کے دَوران کراچی اور صوبے کے دیگر شہروں میں جو سیلابی صورتِ حال پیدا ہوئی، اُس سے نمٹنے میں ناکامی پر عوام نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان بارشوں کے نتیجے میں کراچی کے مرکزی علاقے تک سمندر بنے رہے۔

جب تنقید بڑھی، تو بلاول بھٹو اپنی پارٹی کی حکومت کے دفاع میں میدان میں کود پڑے۔ اُنھوں نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بتا کر عوام کے علم میں اضافہ کیا کہ’’ جب بارش آتی ہے، تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتی ہے، تو زیادہ پانی آتا ہے۔‘‘ اسی طرح صوبے میں سگ گزیدگی کے واقعات میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔

کتّے ریوڑوں کی شکل میں بچّوں، بَڑوں کو کاٹتے پِھرے مگر حکومت عوام کو اُن پاگل کتّوں سے بچانے میں بُری طرح ناکام رہی۔ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ برس صوبے میں ڈیڑھ لاکھ افراد سگ گزیدگی کا شکار ہوئے۔ پھر ظلم یہ بھی ہوا کہ سرکاری اسپتالوں میں سگ گزیدگی کے متاثرہ مریضوں کے لیے مخصوص ادویہ ناپید تھیں، جس کے سبب کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

حکومتی کارکردگی پر اُس وقت بھی سوالات اُٹھے، جب لاڑکانہ میں ایڈز کے وائرس میں مبتلا مریضوں کے حوالے سے اطلاعات سامنے آئیں۔مختلف سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹس میں متاثرہ افراد کی تعداد سیکڑوں میں بتائی گئی، جن میں افسوس ناک طور پر اکثریت بچّوں کی تھی۔ اس ضمن میں صوبائی وزیرِ صحت، ڈاکٹر عذرا افضل، جو آصف زرداری کی بہن ہیں، اس سنگین معاملے سے لاتعلق رہتے ہوئے کئی روز منظرِ عام سے غائب رہیں۔

جب بات عالمی سطح تک جا پہنچی اور سندھ حکومت پر تنقید بڑھی، تو وزیر صاحبہ باہر آنے پر مجبور ہوئیں۔صوبائی حکومت اس عوامی معاملے کو اچھے طریقے سے ہینڈل نہ کرسکی اور شاید لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی رہی۔ اپوزیشن نے اس شکست کو سندھ کے عوام کا پی پی پی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار قرار دیا۔ گو کہ گھوٹکی کے ضمنی انتخاب کا معرکہ پیپلز پارٹی کے نام رہا، مگر لاڑکانہ کی شکست کے سیاسی اور نفسیاتی اثرات سے وہ جان نہ چُھڑا سکی۔

اِن دِنوں عوام وفاقی حکومت کی پالیسز کے سبب شدید منہگائی کی لپیٹ میں ہیں، تاہم پنجاب اور خیبر پختون خوا سے ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی سمیت منہگائی پر قابو پانے کے دیگر اقدامات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ وہاں کبھی نان بائیوں سے مذاکرات ہوتے ہیں، تو کبھی فلور ملز ایسوسی ایشن پر جرمانے، مگر سندھ میں منہگائی کو انتظامی طور پر کنٹرول کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی، حالاں کہ اٹھارہویں ترمیم اِس ضمن میں صوبائی حکومتوں پر بھی کئی ذمّے داریاں عاید کرتی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے ایک درخواست پر صوبے میں دودھ کی قیمتِ فروخت 96 روپے مقرّر کرنے کا حکم دیا، تو کچھ دنوں بعد کمشنر کراچی نے عدالت میں بیان جمع کروا دیا کہ شہر میں دودھ 96 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، جو کسی لطیفے سے کم نہیں تھا۔ اِسی طرح صوبے میں آٹے کے بحران کے حوالے سے بھی سندھ حکومت کی طرف انگلیاں اُٹھیں۔ کہا گیا کہ صوبائی حکومت نے ایک منصوبے کے تحت گزشتہ سیزن میں گندم نہ خرید کر آٹے کا بحران پیدا کیا اور جب وفاق کی جانب سے گندم فراہم کی گئی، تب بھی اُس نے آٹے کے سرکاری نرخ مقرّر کرنے سے پہلو تہی برتی، جس سے فلورملز کو مَن مانی کے مواقع ملے۔

یہی حال سبزیوں، پھلوں کے نرخ آویزاں کروانے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں کے معاملے میں بھی دیکھنے میں آیا۔ نیز، صوبائی حکومت اور پولیس کے مابین سال بھر اختیارات کی جنگ جاری رہی، جس میں کئی افسران قربانی کے بکرے بنے۔ 2019ء میں بھی کچرے پر سیاست جاری رہی اور صرف سیاست ہی رہی کہ اِس حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ پی ٹی آئی کے کراچی سے منتخب رُکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر، علی زیدی لمبے چوڑے دعووں کے ساتھ میدان میں اُترے، فوٹو سیشن ہوئے اور پھر کچھ پتا نہ چل سکا کہ کہاں روپوش ہوگئے۔

اس کے جواب میں سندھ حکومت نے بھی بقر عید کے بعد بڑی صفائی مہم کا اعلان کیا، عید گزرے کئی ماہ ہوچُکے، مگر صفائی مہم کا کچھ اَتا پتا نہیں۔ شاید عوام بھی اس عرصے میں کچرے کے ڈھیروں سے’’ مانوس‘‘ ہوگئے کہ سال کے شروع میں تو صوبے کی عوامی سیاست پر کچرا چھایا رہا، مگر آخری مہینوں میں اِس حوالے سے ہر طرف خاموشی ہی کا راج رہا۔

2019 ء میں صوبے میں امن و امان کی مجموعی صُورتِ حال تسلّی بخش رہی، جس کا ایک واضح ثبوت پی ایس ایل 4 کا کام یاب انعقاد بھی ہے۔ ان میچز کے دَوران کئی غیر مُلکی کھلاڑی آزادانہ کراچی کی سڑکوں پر گھومتے رہے، جس سے عالمی سطح پر شہرِ قائد کا اچھا تاثر اُبھرا۔ اس ایونٹ کی کام یابی کے لیے صوبائی حکومت، سیکوریٹی اداروں اور عوام نے مل کر کام کیا۔ البتہ، گزشتہ برس کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا، جس سے شہریوں میں ایک بار پھر عدم تحفّظ کے خوف نے جگہ بنائی۔

علاوہ ازیں، دہشت گردوں نے امن کی جانب گام زن شہرِ قائد کو پھر سے خون میں رنگنے کے لیے معروف عالمِ دین، مفتی محمّد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ کیا، مگر خوش قسمتی سے وہ محٖفوظ رہے، البتہ اُن کے2 ساتھی شہید ہوگئے۔ گزشتہ سال سندھ میںلڑکیوں کے اغوا اور قتل کی کئی سنگین وارداتیں بھی ہوئیں۔ خیرپور کی 13 سالہ رمشا کا قتل کیس کئی روز میڈیا میں رہا۔ ساتویں کلاس کی اس طالبہ کو گھر میں گھس کر غیرت کے نام پر گولیاں ماری گئیں۔

اس واقعے میں سندھ کے ایک بااثر سیاست دان کے قریبی عزیز، ذوالفقار وسان کے ملوّث ہونے کا دعویٰ کیا گیا، جسے شدید عوامی دباؤ کے بعد حراست میں لیا گیا۔ اسی طرح، چانڈکا ڈینٹل کالج، لاڑکانہ کے ہاسٹل میں پُراسرار طور پر ہلاک ہونے والی فائنل ائیر کی طالبہ، نمرتا کا معاملہ بھی شہہ سُرخیوں میں رہا۔

اس حوالے سے متضاد اطلاعات بھی گردش میں رہیں۔ چوں کہ یہ معاملہ ایک ہائی پروفائل کیس کی شکل اختیار کر گیا تھا، اس لیے حکومتی مشینری کی دوڑیں لگی رہیں۔ اس معاملے سے متعلق جو میڈیکل رپورٹس عدالت میں پیش کی گئیں، اُنھیں عدالت نے غیر تسلّی بخش قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی۔ یہ محبّت میں ناکامی پر خودکُشی کا واقعہ تھا یا طالبہ قتل کی گئی؟ سال کے آخر تک اِس حوالے سے کوئی حتمی بات سامنے نہیں آ سکی۔ کراچی کی دُعا منگی کا اغوا اور ڈرامائی رہائی بھی کئی روز موضوعِ گفتگو رہی۔ اہلِ خانہ کی جانب سے بتایا گیا کہ دُعا کو کراچی کے پوش علاقے سے ایک دوست کے ساتھ جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے اغوا کیا۔

بھرپور میڈیا کوریج کے سبب اس واردات کی دُور دُور تک گونج سُنی گئی، جب کہ سِول سوسائٹی نے بھی لڑکی کی بازیابی کے لیے مظاہرے کیے۔گو کہ اس معاملے کا اعلیٰ ترین سطح پر نوٹس لیا گیا، مگر پولیس پھر بھی بازیابی میں ناکام رہی اور دُعا خود ہی چند روز بعد گھر پہنچ گئی۔ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ اُن کی رہائی تاوان کے عوض ہوئی، تاہم اہلِ خانہ نے ان قیاس آرائیوں کی تردید تو کی، مگر تفصیلات وہ بھی سامنے نہ لائے۔

سندھ کے کسانوں کے لیے سال کے آخری ہفتے بے حد پریشان کُن رہے کہ بھارت سے آنے والے ٹڈی دَل نے پہلے تَھر اور پھر میرپورخاص اور بدین کی ہزاروں ایکڑز پر پھیلی فصلوں پر دھاوا بولا، جس سے کاشت کاروں کا بھاری نقصان ہوا۔ ٹڈیوں کا لشکر وہاں سے واپس پلٹنے کی بجائے ٹھٹھہ، سجاول سے ہوتا ہوا کراچی کے علاقے ملیر پہنچا، تاہم وہاں فصلوں کو نقصان نہیں ہوا، جس کے بعد اُس نے بلوچستان کا رُخ کیا۔

صوبائی حکومت نے کسانوں کی اشک شوئی کی بجائے موقف اختیار کیا کہ ٹڈی دَل پر قابو پانا وفاقی حکومت کی ذمّے داری ہے، جب کہ وفاق نے اس حوالے سے کسی دِل چسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ نقصان اپنی جگہ، مگر گزشتہ برس صوبے کے سبزی کے کاشت کاروں کے وارے نیارے رہے۔ خاص طور پر ٹماٹر کاشت کرنے والوں نے کچّے ٹماٹر مارکیٹ میں لا کر اگلی پچھلی کسر پوری کر لی۔