سیاسی استحکام کی ضرورت

January 14, 2020

پاکستان تحریک انصاف چند چھوٹی اتحادی جماعتوں کی حمایت اور معمولی عددی برتری سے ملک پر حکومت کر رہی ہے۔ ان جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ، سندھ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اپنی اہمیت اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے خاص طور پر نمایاں ہیں اور یہ چاروں وفاقی حکومت کے بارے میں اس وقت شدید تحفظات کا شکار ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت سازی کے وقت ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے جو وعدہ کیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں کیے گئے۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے میں وقتاً فوقتاً ان کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں آوازیں بلند ہوتی رہیں جنہیں حکومتی یقین دہانیوں سے وقتی طور پر خاموش کرایا جاتا رہا لیکن اب ایک توانا آواز ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے اٹھائی گئی ہے جس نے اسلام آباد کے حکومتی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر وفاقی وزیر اسد عمر کی قیادت میں پرویز خٹک اور جہانگیر ترین پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جو ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرے گی۔ اس سلسلے میں گورنر سندھ اور حکومتی رہنمائوں کی ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطے شروع ہو گئے ہیں خالد مقبول صدیقی نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں وفاقی کابینہ سے اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے باہمی تعاون کے سمجھوتے کے ایک نکتے پر بھی عمل نہیں کیا، اس لیے میرا وزارت میں رہنا اب بے سود ہے۔ البتہ کابینہ سے علیحدگی کے باوجود ہم حکومت سے تعاون جاری رکھیں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت سازی کے وقت ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے مابین 9نکاتی مفاہمتی یادداشت پر بہادر آباد اور بنی گالا میں دستخط ہوئے تھے اس کے تحت کراچی کے لیے ترقیاتی فنڈز کے اجرا میئر اور یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کے اختیارات میں اضافے اور دوسرے معاملات کے علاوہ وفاقی کابینہ میں ایم کیو کے دو وزیروں کی شمولیت پر اتفاق ہوا تھا۔ وزیراعظم نے ایم کیو ایم کا نامزد ایک وزیر شامل کیا جبکہ دوسرا اپنی مرضی سے لے لیا، متحدہ کے اس وقت قومی اسمبلی میں سات اور سینیٹ میں 5ارکان ہیں, ایسے وقت میں جب دوسری اتحادی پارٹیوں، خصوصاً بی این پی (مینگل) کو بھی شدید تحفظات ہیں اور اس کی کور کمیٹی کا 19جنوری کو حکومت کے ساتھ مزید چلنے یا نہ چلنے پر غور کے لیے اجلاس بھی بلا لیا گیا ہے، ایم کیو ایم کی شکایات کا ازالہ ضروری ہو گیا ہے جو مبصرین کے مطابق فی الوقت کابینہ سے الگ ہو گئی ہے لیکن دوسرے مرحلے میں حکومت سے بھی الگ ہو سکتی ہے۔ اگرچہ یہ چاروں اتحادی جماعتیں حکومت کو گرانے کے حق میں نہیں لیکن اپنے مطالبات پر سختی سے قائم ہیں جو اگر پورے نہیں ہوئے تو پاکستان کی عمومی طور پر ناقابل اعتبار سیاست کے حوالے سے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اتحادی جماعتوں میں بددلی اور خود پی ٹی آئی میں بعض غیر مطمئن ارکان کی موجودگی کی وجہ سے اپوزیشن آس لگائے بیٹھی ہے کہ مارچ تک ملک میں سیاسی تبدیلی آسکتی ہے، اگرچہ ایسی تبدیلی کے بارے میں فی الحال سوچنا بھی محال ہے مگر اس سے جو غیر یقینی کیفیت پیدا ہو رہی ہے اس کا سدباب ضروری ہے۔ ملک کو اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے جو معاشی استحکام کا بنیادی تقاضا ہے۔ سیاسی خرابیاں معاشی خرابیوں کو جنم دیتی ہیں، جن سے بچنا چاہیے۔ ان حالات میں حکومت کیلئے ضروری ہے کہ اتحادی جماعتوں کو ان کے مطالبات و مسائل کے حوالے سے مطمئن کرے۔ سیاسی اتحادیوں کو بھی چاہیے کہ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے حکومت کو غیر مستحکم کرنے سے باز رہیں اور باہمی معاملات گفت و شنید سے طے کریں۔