’ملازمت کا حصول‘ نوجوانوں کی پہلی ترجیح

January 24, 2020

محمد فاروق دانش

معاشرے کی تشکیل میں نوجوانوں کی شراکت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ سماج میں رہن سہن اور چلن کو بھی بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اپنے رہن سہن اور انداز کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ عمدہ تربیت بھی از حد ضروری ہے۔ہمارے اکابرین نے بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیے جس امر کو لازمی قرار دیا وہ سلیقہ شعاری اور برتاؤ ہے جس سے کسی فرد یا قوم کے اچھے بُرے رحجانات کا اندازہ لگا یا جا سکتاہے۔

اگر بین الاقوامی سطح پر اس بات کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ جن ممالک نے کم سے کم وقت میں اپنے آپ کو ترقی یافتہ افراد کی صف میں لا کھڑا کیا ، و ہ تعلیم کے معاملے میں تو یگانہ تھے ہی ،انھوں نے خوش اخلاقی اور سماجی برتاؤکا اعلیٰ معیار قایم کیا۔ یہی وجہ ان کی تیز رفتار ترقی کا باعث بنی۔تمام تر سہولیات اور آسایشوں کے باوجود ترقی یافتہ اقوام کام ، کام اور بس کام کے مقولے پر عمل پیرا ہیں تاکہ ترقی کا عمل کسی طور رکنے نہ پائے۔ یہی معیار ان کے وقار کو بلند کرنے کا موجب بنا ہوا ہے۔

معاشرت کوئی بھی ہو، ملک کوئی سا بھی ہو ،وہ افراد کے باہم ربط سے بنتا ہے۔ جب تک عوام کا مزاج ایک نہ ہو، وطن سے وفاداری کا جذبہ نہ ہو ، اپنے عقائد اوررواداری کا میلان نہ ہو ، کام کی لگن اور خلوص کا جذبہ نہ ہو تو ترقی عبث ہوگی۔یہ تمام خوبیاں جب ایک جگہ جمع ہو جاتی ہیں تو ایک صاف ستھرا، پر امن معاشرہ وجود میں آتا ہے، جو حکم رانوں کے لیے بھی مسرت کا باعث ہوتا ہے اور عوام بھی سنجیدگی سے اپنے کام میں جتی رہتی ہے۔

کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں جہاں تجربہ کار اور جہاں دیدہ افرادد کی مہارت شامل ہوتی ہے وہیں اس کی تعمیر وترقی میں نوجوانوں کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ نوجوان کی عقابی نگاہیں جب مقصد حیات کی طرف اٹھتی ہیں تو وہ پامردی اور حوصلہ مندی کے ساتھ اپنی تمام تر توانائیاں اس پر صرف کر دیتے ہیں۔ان کے حوصلوں کا یہ سفر اپنی منزل کو پا لینے تک جاری رہتا ہے۔

اقبال نے بھی ایسے ہی نوجوانوں کو اپنا مرکز نگاہ بنایاتھا۔وہ ایسے باصلاحیت نوجوانوں سے محبت کا نعرہ بلند کرکے ان سے ستاروں پر کمند ڈالنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ایسے نوجوان جو اپنی منزل پا لینے کی خاطر آگ کے دریا بھی عبور کر جائیں ، جنھیں اپنی ذاتی اغراض کے بجائے اعلیٰ ترین مقصد پانے کا جنون ہو۔ایسا جنون جس کی کوئی حد نہ ہو، جس کے لیے لاکھوں کروڑوں دقیقوں کی کوئی اہمیت نہ ہو ، جس کی نظر میں مال و متاع سے زیادہ مقصد حیات کو پالینے کا جنون ہو۔ایسے لوگوں کے لیے وہ نوید سناتے ہیں کہ خرد مند کے لیے آگ بھی گلستاں کے انداز پیدا کر سکتی ہے۔

پاکستان میں با صلاحیت نوجوانوں کی کوئی کمی ہے نہ ٹیلنٹ کا فقدان ہے لاکھوں نوجوان وطن عزیز میں اپنے مستقبل کی بہتر تعبیر کے لیے ہمہ وقت علم و عمل کے حصول میں مصروف ہیں۔بے شمار شعبہ جات قسمت آزمائی کے لیے موجود ہیں۔ہمارے ملک میں وسائل کی کمی ہے نہ پڑھنے والوں کے لیے کوئی قدغن۔ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق جی سکتا ہے، کھا سکتا ہے، اسے ہر طرح کی شخصی و مذہبی آزادی ہے، اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کے لیے بہترین تعلیمی ادارے موجود ہیں جہاں بین الاقوای معیارکی تعلیم کے یکساں مواقع موجود ہیں، یہاں نوجوان اپنی استعداد کے مطابق تعلیم حاصل کرکے میدان کارزار میں کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں۔

مسلسل اور لگن کے ساتھ شان دار کام یابی جن نوجوانوں کا مقدر ٹھہرتی ہے وہ تحسین کے لایق ہوتے ہیں، ایسے افراد کو ان کی محنت کا ثمر بھی لازماً ملنا چاہیے،لیکن ٹھیریے! بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا کسی بھی ڈگری کا حصول کسی ملازمت کی احتیاج کا شاخ شانہ ہونا چاہیے؟ہمارے خیال میں تو قطعی نہیں....علم، شعور وفن کے حصول کا ذریعہ ہے، اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور اسے عوام تک منتقل کرنے کا اہم رابطہ ہے۔ کسی بھی فن کی تعلیم کا مقصد ِحیات، ملازمت اور وہ بھی قطعیت کے ساتھ سرکاری ملازمت کا ....ہوتا ہے نہ ہونا چاہیے۔

گلوبل دنیاکا تصور تیزی سے واضح ہو چکا ہے اور پوری دنیا اس کے ثمرات سے محظوظ ہو رہی ہے، لیکن ہمارے یہاں اس سے استفادے کی بھر پور کوشش نہیں کی جا رہی، جو نوجوان انفارمیشن ٹیکنالوجی سے واقف ہیں انہوں نے تو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے مقاصد کو پالینے کی بھرپور سعی کر رکھی ہے، لیکن اس نظام سے بے بہرہ افراد کی بھی کوئی کمی نہیں ، کچھ تو اس کو سیکھنے کی اہلیت رکھنے کے باوجود نہیں سیکھتے اور بعض اس سسٹم کو سیکھنے اور سمجھنے کی جستجو ہی نہیں کرتے۔ایسے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہیں جو ٹیکنالوجی سے واقفیت کے باوجود اسے محض تفریح کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں اور انہیں اپنے وقت کی بربادی کا کوئی احساس نہیں۔

جدید دور میں جب کہ عام افراد کے لیے وسائل کی کم یابی ہے تو اس نے سیکڑوں مسائل لا کھڑے کیے ہیں، جن میں بے روزگاری بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے ،ہر با صلاحیت نوجوان ڈگری حاصل کرنے کے بعد صرف اور صرف اپنی توجہ سرکاری ملازمت کے حصول کی طرف مرکوز کرتا ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہمارا رُحجان صرف یہ ہوگا کہ اگر ہم نے گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن کر لی ہے تو اب لوگ ہمارے لیے ملازمت کا آفر لیٹر لیے کھڑے ہوں گے اور ہم جاتے ہی ایک بہتر اور روشن مستقبل کو پا لیں گے۔

ایسا کسی طور ممکن نہیں، البتہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی بھی نہیں۔یہ دور مقابلے کا دور ہے، اپنی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کو منوانے کا دور ،اس دوڑ میں جو تیز نکل گیا وہ کام یاب ہو گیا اور جو پیچھے رہ گیا .....اس نے اپنا وقت ضایع کردیا۔ حالانکہ اس کے پاس کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو افسردگی اور یاس میں مبتلا کرکے اپنے ہنر وفن سے بھی اغماض برتنے لگتا ہے ، سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

ہماری رائے میں نوجوانوں کو اپنی اس سوچ کو بدلنا ہوگا، اپنے مزاج اور معیار کے مطابق اپنے لیے کسی بھی ہنر مندی کے کام کو اپنانا ہوگا ، بہتر خدمات سے ملک وقوم کو فیض یاب کرنا ہوگا ۔اپنی فیلڈ سے متعلقہ کوئی بھی پیشہ اختیار کر کے انسان نام ور ہو سکتا ہے اور رزق کے اچھے مواقع بھی حاصل کر سکتا ہے۔ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی.......