قیدیوں کی حالت ِ زار

January 20, 2020

ہفتے کے روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ملک بھر کی جیلوں میں قیدیوں کی حالتِ زار سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دورانِ سماعت وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی جانب سے ایک رپورٹ جمع کرائی گئی جس سے ہزاروں قیدیوں کے ایڈز سمیت متعدد خطرناک بیماریوں کے شکار ہونے کا انکشاف ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں کل 5189قیدی انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں، جن میں سے 42قیدی ایڈز اور 1832ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں۔ پنجاب کی جیلوں میں 255مرد اور 2خواتین، سندھ میں 115مرد اور ایک عورت، خیبر پختونخوا میں 39جبکہ بلوچستان کی جیلوں میں 13قیدی ایچ آئی وی ایڈز کے مریض ہیں۔ ملک بھر کی جیلوں میں 65فیصد سے زیادہ قیدی سزا یافتہ ہی نہیں اور اُن کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق کی طرف سے جیلوں میں قیدیوں کی حالتِ زار سے متعلق عدالت میں جمع کرائی جانے والی یہ رپورٹ بہت چشم کشا ہے۔ جیلوں کا مقصد ملزمان کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ اُن کی اچھی اخلاقی تربیت بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے حصے کی قید کاٹنے کے بعد اچھے شہری بن کر زندگی گزاریں لیکن جیلوں میں اُن کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ اُنکی اصلاح کے بجائے مجرمانہ ذہنیت میں مزید پختگی کا سبب بنتا ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کی اخلاقی صحت کی بہتری تو درکنار اُن کی جسمانی صحت بھی بگڑ جاتی ہے۔ اِس صورتحال کی کئی وجوہات ہیں جن میں جیلوں میں گنجائش سے زیادہ نیز ایسے قیدیوں کا رکھا جانا ہے جن پر جرم ثابت ہی نہیں ہوا۔ جیلوں کی حالت اُس وقت تک بہتر نہیں ہو گی جب تک انڈر ٹرائل قیدیوں کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ عدالتی کارروائی اور طریق کار میں اصلاحات کیساتھ ساتھ قیدیوں کے باقاعدہ چیک اَپ کا بندوبست بھی کیا جائے تاکہ جیل سے نکلنے کے بعد قیدی صحت مند اور اچھی سوچ کے حامل شہری بن سکیں۔