ایک تہائی سے زائد برطانوی ’’نائیجیرین یا پاکستانی‘‘ مائیگرنٹس کو روکنے کے خواہاں

January 21, 2020

لندن (پی اے) مائیگرنٹ والدین کے برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچے ملک میں نئے آنے والے مائیگرنٹس کے مقابلے میں اپنے ساتھ زیادہ امتیازی سلوک محسوس کرتے ہیں۔ یہ انکشاف ایک نئی ریسرچ میں ہوا۔ مائیگریشن آبزرویٹری کی ریسرچ میں ایک تہائی سے زائد برطانویوں کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی نائجیرین یا پاکستانی برطانیہ نہ آئے۔ سروے میں 2018 میں کئے گئے دو سرویز میں نشاندہی کی گئی کسی شخص کے ساتھ امتیازی سلوک کی جڑ اس کا مائیگرنٹس سٹیٹس ہونے کے بجائے اس کی نسلی شناخت ہے۔ مائیگرنٹس میں سے 70 فیصد کا کہنا ہے کہ برطانیہ لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے اور 90 فیصد کا یقین ہے کہ مائیگرنٹس اگر سخت محنت کرتے ہیں تو وہ اسے اپنا بنا سکتے ہیں لیکن زیادہ نان یورپی مائیگرنٹس یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ یورپ سے آنے والوں کے مقابلے میں زیادہ تعصب اور امتیاز کا سامنا کرتے ہیں۔ دی مائیگریشن آبزرویٹری بریفنگ، مائیگرنٹس اینڈ ڈسکریمینیشن ان یوکے کی اس ریسرچ کی بنیاد 2018میں یورپیئن سوشل سروے اور دی یوکے لانگیوٹی ہائوس ہولڈ سٹڈی (40000ہائوس ہولڈز) ہے۔ یورپی یونین سے آنے والے زیادہ تر سفید فام ہیں اور صرف 8فیصد کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ برطانیہ میں امتیازی برتائو ہوتا ہے جبکہ یورپی یونین کے باہر سے آنے والے مائیگرنٹس اس سے دگنے تناسب سے یہ کہتے ہیں کہ برطانیہ میں ان کے ساتھ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور اس کا تناسب 19 فیصد ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والی مائیگرنٹس کی سیکنڈ جنریشن کا کہنا ہے کہ ان میں امتیازی برتائو کا احساس پایا جاتا ہے اور اس نسل میں ایسے احساسات کا تناسب مزید بڑھ کر 30فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ بریفنگ کی مصنفہ اور مائیگریشن آبزرویٹری کی ڈاکٹر مرینہ فرنینڈز رینو نے کہا کہ اس جارحانہ رویئے کے پس پردہ محرکات اور وجوہات پیچیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں پیدا ہونے والی کچھ اقلیتوں کے بچوں کے ساتھ نئے مائیگرنٹس کے مقابلے میں نتائج خاص طور پر بیروزگاری کے حوالے سے زیادہ بدتر نتائج ہیں۔ ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے کہ تارکین وطن کے بچے، جو یہاں پیدا ہوئے اور پرورش پائے، ان کی توقعات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور اسی لئے ان میں نئے مائیگرنٹس کے مقابلے میں عدم مساوات یا غیر مساوی اور امتیازی سلوک کے بارے میں زیادہ احساسات ہوتے ہیں، کیونکہ نئے مائیگرنٹس یہاں کی زندگی کا تجزیہ اپنے اوریجن کے ملک سے کرتے ہیں تو ان کو اپنے آبائی ملک کے مقابلے میں یہاں اپنے لئے زیادہ فائدہ دکھائی دیتا ہے، باوجوہ اس کے کہ انہیں ابھی بھی یہاں کچھ ڈس ایڈوانٹیجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آکسفورڈ مائیگریشن آبزرویٹری کی ریسرچ امیگریشن کے رویوں کے بارے میں تھی، جس میں پتہ چلا کہ ایک تہائی سے زیادہ برطانوی عوام یہ چاہتے ہیں کہ کوئی نائجیرین یا پاکستانی برطانیہ نہ آئے جبکہ 10 میں سے ایک یعنی 10 فیصد چاہتے ہیں کہ ثقافتی طور پر قریبی ممالک، جیسے آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو روکا جانا چاہئے۔ یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے مائیگرنٹس نے روایتی طور پر یورپی یونین سے باہر پیدا ہونے والے مائیگرنٹس کی نسبت اپنے ساتھ امتیازی برتائو کے کم تجربات رپورٹ کئے، تاہم 2016کے یورپی ریفرنڈم کے دوران ایسے یورپی مائیگرنٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا جن کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ 2010-12 یا اس کے بعد اس کی سطح میں دگنا اضافہ ہوا۔ 2016-2018کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ میں یورپی یونین مائیگرنٹس پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ امتیازی سلوک محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فرنینڈز نے کہا کہ 2016 کے ریفرنڈم میں یوکے سیاسی ایجنڈے کے ایشوز میں یورپی یونین امیگریشن ٹاپ پر تھی، اس کے بعد اس کو کم توجہ دی گئی۔