ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس ہی روندی جاتی ہے

January 22, 2020

اسلام آباد (طارق بٹ) ہاتھیوں کی لڑائی میں تو گھاس ہی روندی جاتی ہے۔

ایک قیمتی قطعہ اراضی کی خاطر ایک وزیر اور وزیراعظم کے خصوصی معاون کے درمیان تنازع میں دو افسران کے بڑی سرعت سے تبادلے ہوگئے، جن میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سیف اللّٰہ ڈوگر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو رضوان قدیر شامل ہیں۔

احتساب اور وزارت داخلہ کے لئے وزیراعظم کے خصوصی معاون بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر اور نہ ہی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو سیل فونز پر رابطے کی کوششوں کے باوجود دستیاب نہیں ہیں۔

واٹس ایپ پیغام کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ متنازع قطعہ اراضی جی ٹی روڈ مندرہ تحصیل گجر خان میں واقع ہے۔

شہزاد اکبر کے ایک دوست نے ان کا موقف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نے کابینہ رکن کو اس معاملے میں بیان دینے سے روک دیا ہے۔ دستیاب دستاویزات اور فریقین کے دعوئوں کے مطابق اصل جھگڑا دو کنال اراضی کا ہے۔ شہزاد اکبر کے بھائی مراد اکبر نے اس پر ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔

سارا ریونیو ریکارڈ ان کے حق میں ہے جبکہ محمد میاں سومرو کے بھانجے پاکستانی نژاد برطانوی جواد ملک نے اس کی تردید کی ہے۔ جواد ملک مقتول بیرسٹر فہد ملک کے بھائی ہیں جنہیں چند سال قبل اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کی زلفی بخاری کی بہن سے شادی ہوئی تھی۔

مراد اکبر کی ملکیت دو کنال اراضی کے دعوے کی دستاویزات مذکورہ دوست نے واٹس ایپ کیں۔ سرکاری گاڑیوں کی تصاویر بھی واٹس ایپ کی گئیں جو سومرو کی حفاظتی ڈیوٹی پر مامور تھیں جو متنازع جگہ پر استعمال کی گئیں۔

تنازع نے شدت اختیار کی تو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو کو معاملے کی تحقیقات اور رپورٹ تیار کرنے کے لئے کہا گیا۔ ان کی رپورٹ کے مطابق مراد نے ہیرپھیر کی اور انتقال اراضی جعلی ہے۔

ڈپٹی کمشنر نے رپورٹ کی منظوری دی، جس پر طاقت ور حلقوں نے انہیں تنبیہ کی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو کے ساتھ ان کا تبادلہ کر دیا۔ تاہم دوست کا کہنا ہے کہ شہزاد اکبر کا تبادلے میں کوئی کردار نہیں ہے۔

جواد ملک کا کہنا ہے کہ ان کے دادا مرحوم نے 1986 میں جی ٹی روڈ مندرہ پر 10 کنال اراضی خریدی تھی جس پر فلور مل تعمیر کی گئی جو ہنوز موجود ہے۔ ابھی اس اراضی کا دستاویزات کے ذریعے وارثوں تک منتقل ہونا باقی ہے۔ زمین ابھی تک دادا مرحوم کے نام پر ہی ہے۔

تاہم دوست کا کہنا ہے کہ ملک خاندان کے ساتھ تنازع کی وجہ سے منتقلی نہیں ہوسکی۔ 14 جنوری کو جواد ملک کے سپروائزر نے انہیں ٹیلی فون پر بتایا کہ تقریباً نصف درجن بھر سائٹ پر پہنچے جن کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے دو کنال اراضی خریدی ہوئی ہے۔

وہ قبضہ لینا چاہتے تھے۔ سپروائزر نے مندرہ پولیس اسٹیشن میں درخواست دائر کی۔ پولیس کے پہنچنے پر قبضہ کے لئے آنے والے افراد فرار ہوگئے۔ جواد ملک کے مطابق تین دنوں کے بعد مراد کے 50 افراد تعمیراتی سامان کے ساتھ مذکورہ مقام پہنچے۔

دوبارہ سپروائزر نے جواد ملک کو آگاہ کیا۔ ایک سینئر پولیس افسر اور اسسٹنٹ کمشنر گجر خان بن بلائے وقوعہ پر پہنچے۔ جواد ملک کا کہنا ہے کہ مراد نے دو کنال اراضی کی ملکیت کے دعوے کا کیس 2015 میں دائر کیا تھا۔ 2018 میں یکطرفہ طور پر اپنے حق میں فیصلہ حاصل کیا۔

مرحوم دادا کو مدعا علیہ بنا کر دانستہ طور پر غلط پتے پر نوٹس بھیجے گئے تاکہ یکطرفہ کارروائی ہوسکے۔ بعدازاں دونوں بااثر افراد کے درمیان تنازع سنگین صورت اختیار کر لیا۔

سومرو کے زیر اثر ایس ایچ او مندرہ نے اسلام آباد پولیس کو پنجاب کی حدود میں مداخلت سے روک دیا۔

دوست کا کہنا ہے کہ شہزاد اکبر کی طاقت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ وزیر مملکت ہونے کے باوجود وہ اسلام آباد پولیس کو طاقت کے استعمال سے روکنے میں ناکام رہے تاکہ جواد ملک نے شہزاد اکبر کو اراضی پر بزور قبضے کی کوشش کا مکمل ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

سومرو اور شہزاد اکبر تنازع پر بات کی لیکن دونوں میں شدید اختلافات موجود ہیں اور کوئی بھی فریق جھکنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔