خلافت راشدہ کا،دورسورہ نور کی روشنی میں

January 29, 2020

تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی ۔ ۔۔بریڈفورڈ
سورہ نورآیت55 میں اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ سے وعدہ فرمایا ہے کہ ’’ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو مومن ہوئے اور نیک اعمال کیے ‘‘ کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور یقیناًان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی بنیادوں پر قائم کردے گا جسے ان کے حق میں وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا‘بس وہ میری عبادت کریں ‘ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔رسول اللہ ﷺ کے راستباز ساتھیوں کو نہایت واضح الفاظ میں خلافت ارضی عطا کئے جانے کی بشارت کہ تمہارے مخالفین اور دین کے اعداء تمہارا یا تمھارے دین کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ تمھیں خلافت ملے گی ‘ جس طرح پہلے لوگوں کو دی جاتی رہی ہے۔ ‘ تم نماز کا اہتمام رکھو‘ زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ پوری دلجمعی کے ساتھ رسول کی اطاعت پر جمے رہو اور جلد وہ وقت آنے والاہے کہ اللہ تعالیٰ اس خوف کی حالت کو امن و اطمینان سے بدل دے گا۔ اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا اس کے مخاطب وہ صادق الایمان مسلمان ہیں جن کے اخلاق و اعمال صالح ہوں ‘ اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہوکر خالص اللہ کی بندگی وغلامی کے پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ اس کے مصداق‘ لہذاوہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔ امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں :ان آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول ؐ سے وعدہ فرما رہا ہے کہ وہ آپ کی امت کو زمین کا مالک بنا دے گا ، لوگوں کا سردار کردے گا ، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا ۔ بندگان خدا کے دل ان کی وجہ سے شاد ہوں گے ۔آج یہ لوگوں سے لرزاں و ترساں ہیں کل یہ امن و اطمینان والے ہوں گے ۔حکومت ان کی ہوگی ، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی !اور …الحمد للہ…ہوا بھی ایسے ہی ! مکہ خیبر ، بحرین ، جزیرہ عرب اور یمن تو خود نبی کریمﷺ کی موجودگی میں فتح ہوگئے تھے ، ہجر کے یہودیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کرلی تھی، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا۔ شاہ روم ہرقل نے تحائف روانہ کیے ، مصر کے والی نے تحفے بھیجے ، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے اور عمان کے شاہان نے بھی اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا ۔ حبشہ کے بادشاہ تو بہت پہلے اسلام قبول کرچکے تھے ۔ صدیق و فاروق کی خلافت …تاریخ ارضی کا سب سے عظیم الشان دور۔نبی کریمﷺ کے بعد صدیق اکبرؓ نے عنانِ خلافت سنبھالی تو انہوں نے جزیرہ عرب میں حکومت کو بہت مضبوط کردیا۔آپ نے بلاد فارس میں خالدؓ بن ولید کی قیادت میں فوج بھیجی جس نے فتوحات کا سلسلہ شروع کردیا۔ کفر کی جڑیں اکھیڑ کر رکھ دیں، اور اسلام کے شجر سایہ دار سے زمین میں رونق اور چہل پہل شروع ہوگئی ۔بلادِ شام میں حضرت ابوعبیدہ ؓبن جراح کو روانہ کیا جنہوں نے صلیبی نشانات اوندھے منہ گرادیے ۔ مصر میں حضرت عمرو ؓ بن عاص نے اسلام کا جھنڈا لہرایا ۔ اس طرح دور خلافت ابوبکرؓ میں ان ممالک مذکورہ کے علاوہ بصرہ ، دمشق اور حران مسلمانوں کے زیر نگین آگئے تھے ۔حضرت ابو بکر ؓ کی رحلت کے بعد عنانِ حکومت حضرت عمر فاروقؓ جیسے زبردست ہاتھوں میں آگئی تو شام و مصر اور ایران کا پورے کا پورا علاقہ فتح ہوگیا۔ دور فاروقی ہی میں کسریٰ کی پُر شوکت سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ۔ خود کسریٰ کو منہ چھپانے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی ۔ دوسری بڑی سلطنت یا سپر پاور رومی سلطنت کا نام و نشان مٹ گیا ،خود قیصر شام سے بھاگا اور قسطنطنیہ جا کر پناہ گزین ہوا ۔ان سلطنتوں کی صدیوں کی حکومت ، شان و شوکت اور دولت و ثروت ان مجاہدین فی سبیل اللہ کے ہاتھ لگی جو اپنی نیک نفسی ، اپنی شرافت ، اپنے خلوص اور اپنی بے نیازی میں اپنی مثال آپ تھے ۔ دورعثمانی میں فارس کے بت کدے بجھ گئے! حضرت فاروقؓ کے بعد حضرت عثمانؓ کا دور خلافت آتا ہے ۔ تو آپ کی مساعی سے مشرق و مغرب کی طنابیں سمٹ جاتی ہیں ۔ اللہ کی تلواریں توحید خداوندی کو اقصائے مشرق و مغرب تک پھیلا دیتی ہیں ۔ دورِعثمانی ہی میں اندلس ، قبرص ، قیروان ، دستیہ اور چین تک اسلامی فتوحات کا دائرہ پھیل جاتا ہے ۔کسرٰی قتل ہوجاتاہے ۔اس کے ملک کا نام و نشان ختم ہوجاتا ہے ۔ہزارہا برس سے روشن آتشکدے بجھ جاتے ہیں ۔اور ہر اونچے ٹیلے سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی سنائی دیتی ہیں ۔دوسری جانب مدائن ، عراق ، خراسان ، اہواز سب فتح ہوجاتے ہیں ۔ ترکوں سے جنگ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں خاقان اکبر ذلیل و خوار ہوجاتا ہے ۔ اور اس نے خود مشرقی و مغربی کونوں سے اپنے خراج بارگاہ خلافت میں بھجوائے ۔ حق تو یہ ہے کہ ان مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز آپ کی تلاوت قرآن سے محبت تھی ۔حضرت عثمانؓ کو تلاوت قرآن کے ساتھ بے مثال شغف تھا ۔قرآن جمع کرنے ، اسے حفظ کرنے ، اس کی اشاعت کرنے ، اس کی حفاظت کرنے میں جو نمایاں خدمات حضرت عثمانؓ نے سرانجام دی ہیں وہ یقینا عدیم المثال ہیں ۔آپ کے زمانے کو دیکھو اور نبی کریم ﷺ کی اس پیشگوئی کو دیکھو کہ آپﷺ نے فرمایا تھا میرے لیے زمین کی طنابیں کھینچ دی گئیں یہاں تک کہ میں نے مشرق ومغرب کو دیکھ لیا کہ جہاں تک میری امت کی سلطنت پہنچ جائے گی ۔سچ تو یہ ہے کہ عرش بریں کے نیچے اور فرش زمین کے اوپر کسی نبی کے خلفاء کا ایسا پاکباز دور نہیں آیا ۔ ان خلفائے راشدین جیسی قوت ، نیک نفسی ، سیرت کی بلندی ، کردار کی رفعت ، عدل کا کمال ، خدا ترسی کی روایات ، رحمت و شفقت بھرا دور کسی نے نہیں دیکھا ۔حضرت براء بن عازبؓ کہتے ہیں جس زمانے میں یہ آیت اتری ۔ اس زمانے میں ہم سخت خوفزدہ رہتے تھے ۔پھر اللہ نے ہمیں امن و اطمینان نصیب فرما دیا ۔ ایک اور صحابیؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول پاکﷺ سے عرض کی کہ کیا ہم ہمیشہ ایسے ہی ڈرتے رہیں گے ۔کیا ہماری زندگی میں کوئی گھڑی امن و اطمینان اور سکون والی نہیں آئے گی ۔کیا ہم کبھی ہتھیاروں کے بوجھ سے سبکسار نہیں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں کچھ دن صبر کرلو پھر تم دیکھوگے کہ تمہاری مجلسیں بغیر ہتھیار کے سجا کریں گی ۔پھر وہ وقت آیا جب پورے جزیرہ عرب میں کوئی کافر باقی نہ رہا، مسلمانوں کے دلوں سے خوف نکل گیا اور یہ ساری ایمان افروز راحتیں تین خلفاء کے زمانوں تک برابرجاری رہیں ۔ایک حدیث میں عدی بن حاتمؓ کہتے ہیں کہ جب میں خدمت اقدس میں حاضر ہواتو رسول پاکﷺ نے فرمایا عدی! تم نے حیرہ دیکھا ہے ؟ عرض کی سنا ہے ۔ فرمایا: اس رب کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ میرے اس دین کو کامل طور پر پھیلائے گا۔ اور امن و امان کا حال یہ ہوگا کہ ایک سانڈنی سوا ر تنہا عورت حیرہ سے چلے گی اور بیت اللہ پہنچ کر طواف کرے گی ۔ پھر وہ واپس چلی جائے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی قسم کا خوف و خطرہ نہ ہوگا ۔ عدی ! تو یقین کر کہ شاہ ایران کسرٰی بن ہرمز کے خزانے فتح ہوں گے اور ارض بابل کا سفید محل(Whit House)مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگا ۔پھر اس قدر مال کی فراوانی ہوگی کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا ۔حضرت عدیؓ کہتے ہیں ، ان تینوں پیشگوئیوں میں سے دو پیش گوئیاں تو میری موجودگی میں پوری ہوگئیں ۔ اکیلی عورتیں حیرہ سے چلتی ہیں اور بے دھڑک بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں ۔ اور کسریٰ کے خزانے فتح کرنے والوں میں میں خود بھی موجود تھا۔اور مجھے امید ہے کہ تیسری بھی پوری ہوگی ۔امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ بعض سلف سے منقول ہے کہ وہ اس آیت سے حضرت ابوبکرؓ و عمرؓکی خلافت کی حقانیت پر استدلال کیا کرتے تھے۔