بچوں میں سستی اور کاہلی انہیں ڈپریشن کا مریض بنا سکتی ہے

February 14, 2020

لندن (پی اے)برطانوی ماہرین نے ایک تفصیلی مطالعے کے بعد دریافت کیا ہے کہ جو بچے نوبلوغت کی عمر میں زیادہ وقت بیٹھے رہنے میں گزار دیتے ہیں، جب وہ بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو ان کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹیکالج لندن کی آرون کنڈولا اور ان کے ساتھیوں نے برطانیہ کے مختلف اسکولوں میں پڑھنے والے 4200 بچوں کو اس مطالعے کے لئے بطور رضاکار بھرتی کیا، جن کی عمریں بالترتیب 12، 14 اور 16 سال تھیں۔ پہلے مرحلے میں حرکت پر نظر رکھنے والے خصوصی آلات کے ذریعے کئی دنوں تک ان کا مشاہدہ کیا گیا، جس کے بعد مختلف سوالناموں کے ذریعے ان میں بیٹھے رہنے کی عادات اور ڈپریشن کے بارے میں معلومات جمع کی گئیں۔ یہ مطالعہ تقریباً 7سال تک جاری رہا۔ مطالعےکے اختتام پر معلوم ہوا کہ بیٹھے رہنے کے دورانیے میں ہر 60 منٹ اضافے کے ساتھ 12، 14 اور 16 سال عمر والے بچے جب بالغ ہوئے (یعنی 18 سال کی عمر کو پہنچے) تو ان میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی بالترتیب 11، 8 اور 10.5 فیصد زیادہ ہوگئے۔ ڈپریشن کا سب سے زیادہ خطرہ، یعنی 60 فیصد، اُن بچوں میں دیکھا گیا، جو سب سے زیادہ سست تھے اور روزانہ 10 گھنٹے تک بیٹھے رہنے کے عادی تھے۔ البتہ یہ بچے حرکت سے معذور نہیں بلکہ حد سے زیادہ آرام پسند ہیں اور کسی بھی قسم کی جسمانی سرگرمی میں حصہ لینے سے جی چراتے ہیں۔ اس رپورٹ کی مصنفہ اور یونیورسٹی کالج لندن کی نفسیات کی پی ایچ ڈی کی طالبہ آرون کنڈولا کا کہنا ہے کہ اس مطالعے کے نتائج اُن والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہیں، جو اپنے بچوں کو ہر وقت آرام دینا چاہتے ہیں، حالانکہ نوبلوغت کی عمر (12 سے 17 سال) بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ اپنے بچوں کو آرام پسندی کی ترغیب دینے والے والدین صرف ان کی جسمانی صحت کے ساتھ ہی نہیں کھیل رہے بلکہ اس مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ وہ ان کی ذہنی صحت بھی تباہ کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ اس مطالعے کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’دی لینسٹ سائکیاٹری‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔