عقیدہ توحید کی عظمت

February 18, 2020

تحریر:حافظ محمد عبدالاعلیٰ درانی۔۔ بریڈفورڈ
عقیدہ ٔتوحید دین اسلام کی روح ہے اور اسلام کے بنیادی ارکان میں سے پہلا رکن ہے۔ تمام عبادات میں یہی روح کارفرما ہے۔ دنیا کے کسی مذہب میں حق تعالی کی وحدانیت کے بارے میں کوئی واضح تصور موجود نہیں ہے کسی نے حضرت عیسی ابن مریم کوخدا کا بیٹا قرار دے رکھا ہے اور کسی نے حضرت عزیز کو۔ کسی نے آگ ، ستاروں ، سورج و چاند بلکہ ہر نفع ونقصان والی چیزوں ،جانوروں ، درندوں اور حشرات الارض تک کو معبود بنا رکھا ہے ۔ جبکہ یہ تمام تصورات اور عقیدے باطل ہیں ۔اس کے مقابلے میں اسلام کا نظریہ توحید بالکل کلیئرہے سورہ الاخلاص کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرقسم کے شرکیہ نظریات سے مبرا ہے اس کا کوئی شریک نہیں کوئی نبی ولی فرشتہ یا مقرب اس کی بادشاہت امر و حکم میں شریک و سہیم نہیں ہے اسی عقیدے کی تصحیح کیلئے تمام انبیاء کرام مبعوث ہوئے ان کی سب کی زندگیوں کا محور توحید باری تعالیٰ کا نکھرا تصور دینا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہی تمہارا رب ہے ‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے پس اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا نگہبان ہے(الانعام102:)۔ توحید کے بغیر کوئی عبادت بارگاہِ رب العالمین میں درجہ قبولیت نہیں پاسکتی۔ خواہ اس کی ادائیگی میں کتنی ہی مشقتیں کیوں نہ اٹھائی گئی ہوں اور خواہ وہ عبادت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو؟فرمان رب العالمین ہے: ’’آپ کی طرف اور آپ سے پہلے لوگوں کی طرف وحی بھیجی جاچکی ہے کہ اگر تم نے (کسی کو اللہ کا) شریک ٹھہرایا تو تمہارے اعمال اکارت ہوجائیں گے۔ اور تم نقصان اٹھاؤ گے۔ (الزمر65:) سورہ الفرقان میں ارشاد ہوا:’’ہم ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو غبار (اڑتی ہوئی خاک) کی طرح بیکار کردیں گے۔‘‘(الفرقان 23:) مزید ارشاد ہوا: ’’ اس دن کتنے ہی چہرے رسوا ہوں گے یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘ (الغاشیۃ2تا 4)۔عقیدہ کا تعلق دل سے ہوتا ہے جبکہ عبادت (جسمانی ہو خواہ مالی) اس کی عملی شکل ہے۔ عبادت کے ذریعے انسان اظہار بندگی کرتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا معبود کون ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری عبادت ‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھ کو بھی اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور فرمانبرداری میں ‘ میںسب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔‘‘(الانعام)عقیدہ توحید کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے۔ ایک مسلمان جب بن دیکھے اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود مانتا ‘ اس کے حضور مؤدب کھڑا ہوتا‘ تعظیماً جھکتا ‘ غایت درجہ احترام میں اس کے حضور سجدہ ریز ہوتا اور مؤدب بیٹھتا ہے تو وہ ان حرکات (نماز) کے ذریعے اپنے عقیدے کا عملی اظہار کرتا ہے کہ وہ ایک اللہ رب العالمین کا بندہ ہے جس کے سوا اس کا کوئی معبود نہیں۔ اسی طرح وہ اپنے پروردگار کے حکم پر عمل کرتے ہوئے دن بھر بھوک پیاس کی تکلیف اٹھاتاہے ‘ روزہ رکھ کر اظہار بندگی کرتا ہے کہ وہ جلوت وخلوت میں اپنے مالک حقیقی کے احکامات کا پابند اور فرما نبردار ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ شوق بندگی اسے اپنے رب کے گھر کی طرف کھینچے لے جاتا ہے اور وہ سفر کی صعوبتیں اٹھاتا‘ مشقتیں جھیلتا‘ ایک عالم وارفتگی میں ’’لبیک لبیک‘‘ پکارتا ہوا اپنے پروردگار کے حضور جاپہنچتا ہے اور مناسک حج ادا کرتا ہے۔ اور اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے کہ اس کے جسم وجان اپنے خالق ومالک کے حکم کے پابند ہیں۔ جسمانی عبادت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے پروردگار کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے مال میں سے ایک مقررہ حصہ(زکوٰۃ) نکال کر اس کے نام پر دیتا ہے۔ بلکہ اس کی بارگاہ میں مزید تقرب حاصل کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے مال میں سے خرچ کرتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ مالی عبادت کے ذریعے بھی عقیدہ توحید پر کاربند ہونے کا عملی اظہار کرتا رہتا ہے۔ مالی عبادت کی ایک قسم قربانی ہے‘ یعنی بندئہ مومن اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کیلئے اس کے نام پر جانور قربان کرے۔ اور یہ ثابت کردے کہ اس کی جان ومال پر اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ اور اسی طرف لوٹنے والا ہے۔ آج اگر وہ اللہ کے حکم پر جانور ذبح کررہا ہے تو کل اللہ کے حکم پر اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کرے گا۔ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عمل سے ثابت کردکھایا ۔ جب عقیدہ توحید کی خاطر جان قربان کرنے کا وقت آیا تو ذرہ برابر نہ گھبرائے اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اللہ کے حکم پر ذبح کردیں تب بھی نہ گھبرائے اور بے چون وچرا بیٹے کو لٹا کر چھری چلا دی۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ ان کے بیٹے کو بھی بچا لیا اور تاقیامت اس سنت ابراہیمی ؑ کو جاری کردیا۔سنت ابراہیمی ؑ (قربانی) نے شرک کے ایک بہت بڑے دروازے کو بند کردیا۔ جس طرح فطری طور پر انسان کے اندر جسمانی عبادت کا جذبہ موجود ہے۔ اسی طرح مالی عبادت (صدقات‘ نذر ونیاز اور قربانی) کا جذبہ بھی اس میں پایا جاتا ہے۔ اگر انسان کے جذبہ کی صحیح رہنمائی نہ کی جائے (جیسا کہ اسلام نے کی) تو وہ گمراہی کا شکار ہوکر اپنے معبود حقیقی کو چھوڑ کر مخلوقات میں سے کسی کیلئے یہی عبادت کے کام کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عہد قدیم سے جس طرح انسان بتوں اور دیگر مخلوقات کی پوجا کرتا آیا ہے۔ اسی طرح ان کے نام کی نذر ونیاز اور ان کے لئے ذبح کرتا (قربانی کرتا) آیا ہے۔ کفار ومشرکین بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دیتے اور مخصوص آستانوں پر جا کر غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرتے۔ اہل عرب کے بتوں میں سب سے پرانا بت ’’منات‘‘ تھا جو بحر احمر کے ساحل پر مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام’’قدید‘‘ میں نصب کیا گیا تھا۔ اس علاقہ کے لوگ اس کی تعظیم کرتے۔ اس کے نام پر جانور ذبح کرتے اور نذر ونیاز و قیمتی چڑھاوے چڑھاتے۔ اسلام سے قبل یثرب کے علاقہ کے لوگ جب حج کے لئے آتے تو تمام مناسک حج ادا کرتے مگر اپنے سر نہ منڈاتے بلکہ حج سے واپسی پر ’’منات‘‘ کے پاس آتے‘ اپنے سرمنڈاتے اور کچھ دن یہاں ٹھہرتے۔ اس کے بغیر وہ اپنا حج نامکمل سمجھتے۔ اسی طرح اہل مکہ کا بت ’’عزی‘‘ تھا جو عرفات کے نزدیک ایک بڑی عمارت میں نصب تھا‘ اس کے نزدیک ہی ایک درخت تھا جہاں لوگ جانور ذبح کرتے اور اپنی حاجت روائی کے لئے دعائیں مانگتے۔ گذشتہ اقوام(جن کے حالات وواقعات قرآن مجید اور کتب احادیث میں مذکور ہیں) بھی اسی گمراہی کا شکار تھیں۔ چنانچہ سورئہ نوح میںقوم نوح کے پانچ مشہور بتوں کے نام بیان کئے گئے ہیں جن کی وہ لوگ عبادت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح گذشتہ اقوام میں سے ایک قوم کا واقعہ آنحضرتﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ ’’ایک شخص صرف مکھی کی وجہ سے جنت میں جاپہنچا اور ایک جہنم میں چلا گیا۔صحابہ کرام ث نے عرض کیا یا رسول اللہ ا وہ کیسے؟ آپ ا نے فرمایا کہ دو شخص چلتے چلتے ایک قبیلے کے پاس سے گذرے۔ اس قبیلے کا ایک بہت بڑا بت تھا۔ وہاں سے کوئی شخص بغیر چڑھاوا چڑھائے بغیر نہ گذر سکتا تھا۔ چنانچہ ان سے ایک کو کہا گیا کہ یہاں ہمارے بت پر چڑھاوا چڑھاؤ‘ اس نے معذرت کی کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمہیں چڑھاوا ضرور دینا ہوگا‘ چاہے ایک مکھی پکڑ کر ہی چڑھا دو۔ اس نے مکھی پکڑ کر اس بت کی بھینٹ چڑھا دی۔ انہوں نے اس شخص کا راستہ چھوڑ دیا۔ وہ شخص (اس مکھی کے چڑھاوے کی وجہ سے) جہنم میں داخل ہوگیا۔ پھر وہ دوسرے شخص سے کہنے لگا کہ تم بھی کسی چیز کا چڑھاوا دو تو اس اللہ کے بندے نے جواب دیا کہ میں غیر اللہ کے نام پر کوئی چڑھاوا نہیں چڑھا سکتا۔ یہ جواب سنتے ہی انہوں نے اس شخص کو مار کر شہید کردیا تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگیا۔‘‘اسلام نے انسان کے جذبہ عبادت کی صحیح رہنمائی فرمائی ا ور اسے سمجھایا کہ جسمانی ومالی غرضیکہ ہر طرح کی عبادت اللہ وحدہ لاشریک کے لئے خاص ہے۔ غیر اللہ کے آگے جھکنا‘ انہیں سجدہ کرنا شرک ہے۔ جس طرح نماز‘ روزہ وغیرہ میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں اسی طرح نذر ونیاز اور قربانی وغیرہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ مگر شیطان نے جس طرح انسان کو دھوکہ دے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دور کردیا وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتا‘ جگہ جگہ سرجھکاتا اور ذلت ورسوائی کا شکار ہوتا ہے۔ اسی طرح اس نے مالی عبادت خصوصاً قربانی کے بارہ میں بھی اسے شرک میں مبتلا کردیا ہے۔ ایسا شخص قربانی کے جانور کی وہ عزت وتکریم اور قربانی کے لئے وہ اہتمام نہیں کرتا جو کسی اور نذر لغیر اللہ کے لئے کرتا ہے۔سنت ابراہیمی ؑ (قربانی) رسمی طور پر جانور ذبح کرنے اور کھانے کا نام نہیں بلکہ یہ عقیدہ توحید کو اجاگر کرنے کا نام ہے۔ وہ جانور جسے ہم نے پیدا کیانہ اس پر کوئی اختیار رکھتے ہیں جو طاقت وقوت میں ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اس طرح مسخر کردیا کہ ہم بآسانی اسے ذبح کرلیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے جسم وجان کو بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا چاہئے کہ اس کے کسی حکم سے سرِ مو انحراف نہ کریں۔ بلکہ اپنی خواہشاتِ نفس کو اس پر قربان کردیں اور جب وہ ہم سے جان کی قربانی کا تقاضاکرے تو بے دھڑک اس کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیں۔ مگر پہلی اور ابتدائی بات جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم خالصتاً اس کی بندی کریں اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہیں کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔‘ (النساء36:) ’’‘کیا ہم جانور قربان کرنے سے قبل اللہ کے حکم پر اپنی خواہشات نفس قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ کیا ہم سنت ابراہیمی کے ایک پہلو (جانور کی قربانی) سے قبل ابراہیم علیہ السلام کی عقیدئہ توحید کی خاطر دی ہوئی عظیم قربانی‘ ظالم وجابر حکمران کے سامنے کلمہء حق کہنے ‘ پوری قوم کی مخالفت کے باوجود عقیدہ توحید پر ڈٹے رہنے اور اسی عقیدہ کی خاطر آگ میں ڈالے جانے جیسی آزمائشوں میں پورا اترنے اور دعوت توحید کی خاطر اپنا سب کچھ کھپانے کیلئے تیار ہیں؟قربانی ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہم غیر اللہ کی بندگی ‘ بت پرستی‘ اور تمام مروجہ ’’سرکاروں‘‘ و ’’درباروں‘‘ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے خالصتاً ایک اللہ کی بندگی کریں اور ہماری تمام عبادات ’’جسمانی ومالی‘‘ ہر طرح کے شرک سے پاک ہوں۔ یہی ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ اور اسی کی پیروی کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ ملت ابراہیمی کی پیروی اختیار کیجئے جو صرف حق کی طرف مائل تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘ ‘‘ (النحل 123:)۔