واہ رے چاپلوسی …

February 23, 2020

تحریر :نواز سلامت۔۔۔ ڈنمارک
کافی عرصہ ہو گیا اپنے قلم سے دور دور اور بہت دور ہوتا جا رہا تھا لیکن ایک بات سوچ رکھی تھی کہ لکھوں گا، جب دل دماغ اور روح کی طرف سے آواز آئے گی۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں خوشامد کو برا نہ کہا گیا ہو یا خوشامد سے منع نہ کیا گیا ہو، لیکن افسوس آج بھی کچھ نادان لوگ کسی دوسرے انسان کی خوشامد میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ کچھ لمحات کے لیے تو وہ اسے خدا ہی بنا ڈالتے ہیں۔ لیکن ان کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ خوشامد کسی کو خدا تو نہیں بنا سکتی، مگر حد سے زیادہ خوشامد کسی کو ایک خطرناک حیوان ضرور بنا سکتی ہے، جو کل کو انہی کو انسان بھی نہیں سمجھے گا۔میں یہ نہیں کہتا کہ یورپ میں خوشامدی نہیں پائے جاتے، لیکن یہاں ایسے لوگوں کی تعداد نسبتا کم ہے جو اپنے مفاد کے لیے کسی دوسرے انسان کی خوشامد کرتے ہیں۔ بلکہ یہاں اکثریت ان کی ہے جو کسی بھلے انسان کا دل خوش کرنے کے لیے کبھی کبھار خوشامد کا سہارا لے لیتے ہیں، جیسے کسی بیمار یا بے گھر کو کہہ دیناکہ آپ بہت ہمت والے ہیں، یا کسی احساس کمتری کے شکار بچے کو سراہنے کےلئے تعریفی کلمات کہہ دینا تاکہ وہ کچھ لمحات کے لیے اچھا محسوس کرے۔ مگر افسوس کہ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں آج بھی خوشامد کی بد ترین مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔آج یوں ہی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری۔ جس میں ایک خاتون کسی صوبائی وزیر کو حسن کارکردگی پر ایک شیلڈ دے رہی تھیں۔ ان کے ساتھ سٹیج پر حسب معمول چند نامعلوم نوجوان بھی ہیرو بن کر کھڑے تھے، چلیں کہہ دیتے ہیں کہ سب اچھے لگ رہے تھے۔ لیکن حد سے زیادہ خوشامد ایک ایسی چیز ہے جو مجھے بہت ہی مشکل سے ہضم ہوتی ہے۔ ہوا یوں کہ ان خاتون نے ان صوبائی وزیر سے اپنی تنظیم کے لیے چندہ حاصل کر نے کے لیے ان کو ایسے ایسے کارنامے سرانجام دینے کی مبارکباد دے ڈالی جن سے ان وزیر صاحب کا ذرہ برابر بھی لینا دینا نہیں ہو گا۔میں اس ویڈیو کو دیکھ کر کچھ گھوم سا گیا کہ لوگ کیوں اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ایک عام انسان کو خدا کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں؟ منافقت اور خوشامد ان کے ایک ایک لفظ سے ایسے جھلک رہی تھی کہ جس کی کہیں مثال نہ ملتی ہو۔ ایک طرف تو دل سے یہ دعا نکلی کہ خدایا ان کے اس گناہ کو معاف کردے اور ان کو عقل دے، اور دوسری طرف میں انہی سوچوں میں گم تھا کے ہم لوگ کس طرف جا رہے ہیں؟اسی طرح ہماری ایک سیاسی لیڈر اس حد تک چلی گئی کہ انہیں اپنے قائدمیں خداوندیسوع مسیح نظر آنے لگے ۔۔۔۔۔آپ نے اکثر سوشل میڈیا پر دیکھا ہو گا کہ اگر کبھی کوئی ہمارا بھائی دھکے شکے کھا کر اور اپنا پسینہ بہا کر کسی وزیر، فنکار یا رئیس کے ساتھ تصویر بنانے میں کامیاب ہو جائے تو سوشل میڈیا پر اس تصویر کوشیئر کرتے ہی ʼواہ واہʼ، ʼگاڈ بلیس یوʼ، جیسے کامینٹس کی برسات ہو جاتی ہے ، مگر حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے کہ اس نے کتنے پاپڑ بیلے ہوتے ہیں صرف ایک تصویر بنانے کے لیے۔ لیکن حیرانگی ان عقلمند اور معصوم لوگوں پر ہوتی ہے جو بس تصویر کو دیکھ کر ہی پتا نہیں کیا رام کہانی سوچ لیتے ہیں اور تصویر شیئر کرنے والے کو بے وقوف سمجھ کر اتنی تعریفیں کرتے ہیں کے وہ بھائی اپنی ہی تصویر کو دیکھ دیکھ کر سوچنے لگ جاتا ہے کی میں بڑا ہوں یا یہ لوگ جو میرے ساتھ کھڑے ہیں؟ اس میں قصوروار تصویر شیئر کرنے والا نہیں بلکہ جھوٹی تعریفیں کرنے والے ہیں۔میں اپنے بہن بھائیوں سے گزارش کروں گا کہ تعریف اس کی کریں، جو اپنے اچھے اعمال کی وجہ سے قابل تعریف ہو اور اگر آپ کو تصویر کے پیچھے کی کہانی کا علم نہ ہو تو پوچھ لیا کریں اور پھر تعریف کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا کریں۔ آپ یاد رکھیں کہ آپ کی خوشامد کسی کو ان خطرناک بلندیوں تک لے جا سکتی ہے جہاں سے واپس آنا عام انسان کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے اور جو کل کو آپ کے لیے اور بہت سے دوسرے شریف لوگوں کے لیے بھی خطرناک ثابت بھی ہو سکتی ہے۔کیا کسی نے خوب کہا ہے ۔۔۔۔A flatterer is a secret enemyفیصلہ آپ پر ہے… سوچیئے