میرا بیٹا آٹھ سال بعد بھی بازیاب نہ ہوسکا

March 01, 2020

8برس سےکرسمس سمیت کتنے ہی تہوار ہیں جواپنے ببیٹے کے بغیر گذار دئیے۔بس ایک آس اور امید ہے کہ شاید کسی روز وہ ہمارے پاس ہو اور 8 برس کی یہ نا امیدی امید میں بدل جائے۔یہ الفاظ ایک باپ کے ہیں جو 8 برس سے اپنے لخت جگر کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔یونس صادق کا بیٹا 29 فروری 2012 کو پراسرار طور پر اغوا کر لیا گیا تھا اور آج تک اسکی کوئی خبر نہیں ملی۔یونس صادق نے بتایا "29فروری 2020کو26 سالہ آئزک سیمسن عمر جو کہ گڈسمر ٹین اسپتال (کورین اسپتال) واقع گلشن بہار سیکٹر 16 اورنگی ٹائون میں بحیثیت اکائونٹینٹ ملازم تھا۔

معمول کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے اسپتال کیلئے اسپتال کی گاڑی نمبر EA-4646 پر گھر سے روانہ ہوا۔اس کے دو یا تین گھنٹے بعدٹی وی پر سلائیڈ پر دیکھا کہ اورنگی ٹائون سے دو کورین ڈاکٹر اغوا ہوگئے ہیں۔میں نے اپنے بیٹے کو فون کرکے خیریت معلوم کرنی چاہی مگر میرے بیٹے کا فون بند تھا۔ پھر میں نے اسپتال کے پی ٹی سی ایل نمبر پر فون کیا تو پتہ چلا کہ میرے بیٹے آئزک سیمسن اور اسپتال کے مینجر اندریاس جاویدکو اغوا کیا گیا ہے۔ میں اپنے چھوٹے بیٹے عامر جیکسن کے ہمراہ اسپتال پہنچا تو اسپتال کے عملے نے مجھےکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا اور بتایا کہ گاڑی ڈرائیور ناصر مسیح تھانے رپورٹ کرانے گیا ہوا ہے۔

مغوی نوجوان آئزک سیمسن

ڈرائیور ناصر مسیح نے بتایا کہ میں اسپتال کے اسٹاف اندریاس جاوید، آئزک سیمسن اور آسٹن جان کو لے کراسپتال آرہا تھا ۔ جب اورنگی ٹائون نمبر 11-1/2 شمسی کالونی نزد اسنیک بار صبح سوا آٹھ بجے پہنچے تو ایک کرولا کار نےہماری وین کا راستہ روک لیا۔ اس میں سے چار نامعلوم افراد جن کے ہاتھوں میں پستول تھے اترے ااورانہوں نےسب سے پہلے آئزک سیمسن کوکار میں بٹھایا، پھر اندریاس جاوید کواجب کہ آسٹن جان کو کار میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اتار دیا ۔

آسٹن جان سے ملاقات کی تو اس نے بھی ڈرائیور ناصر مسیح والا بیان دہرایا۔اسپتال کے ایک اور ڈرائیور انجم فیض عرف مٹھوکے بیان کے مطابق وقوعے والے روز وہ شمسی کالونی سے گزر رہا تھا کہ اس وہاں اسپتال کی وین نظر آئی ۔میں اس کے پاس گیا تو ڈرائیور ناصر نے بتایا کہ اندریاس جاوید اور آئزک سیمسن اغوا ہو گئے ہیں۔ انجم فیض نے اسپتال وین کی دوسری چابی اپنی جیب سے نکالی اور وین اسٹارٹ کی اور ہم اسپتال آگئے اور اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لم کو تمام حالات بتائے تو ڈاکٹر لم نے کہا کہ جاکر تھانے میں رپورٹ کرو، میں اور ناصر اور آسٹنپاکستان بازار تھانے میں رپورٹ درج کروانے گئےتو معلوم ہوا کہ ڈرائیور ناصر مسیح کی مدعیت میں ایف آئی آر مقدمہ الزام نمبر 27/2012 بجرم دفعہ 365/34ت پ درج ہوچکا ہے اور ہم کو بھی ایف آئی آر کی کاپی دے دی گئی۔ ہم روزانہ کورین اسپتال اور تھانہ پاکستان بازار جاتے تھے لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا تھا۔ ایک دن اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لم اور میڈم تارا نے مجھے اور اندریاس جاوید کے بھائی سائول سے کہا کہ اگر کوئی آپ لوگوں کو تاوان وغیرہ کی کال آئے تو فکر نہ کرنا آپ ہمیں بتادینا جو بھی ڈیمانڈ ہوگی ہم پوری کریں گے۔لیکن آج تک مجھے یا میرے اہل خانہ کو کوئی فون کال نہیں آئی ۔

میرے بیٹے کے ساتھ اغوا ہونے والا اندریاس جاوید 37؍ دن کے بعد 6اپریل کو خود ہی وا پس آگیا۔ اندریاس جاوید نے بتایا کہ کل رات کو اغوا کار ہمیں کسی اور مقام پر شفٹ کررہےتھے، پہلے ایک کار میں بٹھایا اور پھر ایک ٹرک میں منتقل کیا۔ میں نے کوشش کرکے اپنے ہاتھوں کی رسی کھولی اور پھر آنکھوں سے ٹیپ اتاردی ۔ اس کے بعد آئزک سیمسن کی بھی رسیاں کھول دیں، ٹرک کے اندر گھریلو سامان وغیرہ تھا اور ٹرک کے اوپر ترپال بندھا ہوا تھا۔ میں نے ترپال سے جھانک کر دیکھا کہ ناردرن بائی پاس کا علاقہ ہے پھر جب ٹرک ٹول پلازہ پر آہستہ ہوا تو میں نے چلتے ٹرک سے چھلانگ لگادی پھر میں گڈاپ تھانے گیا وہاںسارا ماجرا بیان کیا۔ انسپکٹر نصیر بلوچ میرے ساتھ ٹرک کی تلاش میں کاٹھور تک گئے لیکن اس کا کوئی سراغ نہیںملا۔ جب اندریاس جاوید سے تھانہ پاکستان بازار کے تفتیشی آفیسر اور ایس ایچ اواندریاس جاوید کے بیان سے مطمئن نہیں تھے۔

جون 2012ء کو جب میں نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن نمبر CP-D2220/12 دائر کروائی تو پھر پولیس نے باقاعدہ کارروائی شروع کی۔ سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ۔ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس مشیر عالم صاحب کے حکم پراے آئی جی لیگل علی شیر جکھرانی کو تفتیش کا حکم دیا۔انہوں نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اندریاس جاوید جھوٹ بول رہا ہے۔

میں ہمیشہ تفتیشی افسران سے کہتا رہا ہوں کہ اندریاس جاویدکےپائوں کے زخم کی میڈیکل رپورٹ لی جائے کیونکہ اس کے پائوں کا فریکچر ٹرک سے چھلانگ لگانے سے نہیں ہوا لیکن میری بات پر توجہ نہیں دی۔ایک دن کےڈاکٹر لم نے مجھ سے کہا کہ اب آپ کے بیٹے کےتاوان کی ذمہ داری ہماری نہیں ہے۔ اس کے بعد اسپتال انتظامیہ نے اس بات پر زور دینا شروع کردیا کہ ہائی کورٹ سے مقدمہ واپس لے لو۔ دوسری جانب اندریاس تھائی لینڈ چلا گیا۔ وہاںسے واپسی کے بعداس نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ میں نے مایوس ہوکر مذکورہ کیس کرائم برانچ منتقل کرنے کی درخواست دی اور میرا مقدمہ پاکستان بازار سے کرائم برانچ منتقل ہوگیا لیکن اندریاس جاویداہل خانہ کے ہمراہ سری لنکا منتقل ہوگیا۔

جے آئی ٹی والوں نے بھی کہا کہ آپ کا بیٹا کسی ایجنسی کےپاس نہیں آپ اندریاس جاوید اور اسپتال کی انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کروائیں۔میری دوسری ایف آئی آردرج ہونے سے پیشتر ہی کورین اسپتال کی انتظامیہ نے ایک پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں دائر کردی۔

میری ایف آئی آر درج کرنے سے تھانہ پاکستان بازار کے افسران انکار کرتے رہے، آخر ہائی کورٹ کے حکم پر اندریاس جاوید،آسٹن جان ڈرائیور ناصر مسیح اورڈرائیور انجم فیض عرف مٹھو کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔مقدمہ کا تفتیشی افسر اورنگزیب جدون کو مقرر کیا گیاجنہوں نےمیرے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا ۔ 20؍ دن کے بعد تفتیشی افسر نے فون کرکے تھانہ پاکستان بازار آنے کی ہدایت کی۔ جب میں تھانے پہنچا تو بتایا گیا کہ مقدمہ کے ملزمان آسٹن جان، ناصر مسیح، انجم فیض اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کرواچکے ہیں۔

یہاں سے مایوس ہوکر تھانہ میں نے ایک بار پھر مقدمہ کی تفتیش کیلئے کرائم برانچ درخواست دی، جس کے بعد تفتیش کرائم برانچ ہی کررہی ہے۔اس کے ڈی ایس پی محمد یونس بلوچ نے 12مئی 2015کو مجھے نوٹس دیا کہ تفتیشی آفیسر کرائم برانچ کے روبرو پیش ہو کر اپنا اور گواہان کے بیانات ریکارڈ کرائیں۔ جب میں کرائم برانچ گیا تو معلوم ہوا کہ ڈی ایس پی محمد یونس بلوچ کا ٹرانسفر ہوگیا ہے اور اب میں اپنا بیان انسپکٹر ناصر شیخ کے پاس قلمبند کروائوں۔ میں نے اپنا بیان انسپکٹر ناصر شیخ کو قلمبند کروایا ۔ انہوں نے کہا کہ آپ مجھے مبلغ 15000/- روپے دیں میں آپ کی جانب سے مضبوط کیس بنادوںگا۔ میرے پاس مطلوبہ رقم نہیں تھی اس لیے واپس آگیا۔ انسپکٹر ناصر مجھے فون کرکے رقم کا تقاضہ کرتا رہاایک دن صبح 8؍ بجے انسپکٹر ناصر احمد شیخ میرے گھر پر آگیا اور کہنے لگا تھوڑے بہت پیسے تو لگتے ہیں، دے دیں تاکہ میں آپ کا بیان کورٹ میں جمع کراسکوں۔ میں نے اس بات کی شکایت ڈی ایس پی راجہ ارشد سے کی۔

لیکن اس کے بعد جو بیان میں نے انسپکٹر ناصر احمد شیخ کو قلمبند کروایا تھا اس کا کچھ پتہ نہیں لیکن انسپکٹر ناصر احمد شیخ نے اپنی مرضی کا بیان بنا کر پیش کردیا۔ ناصر شیخ کے بعد انسپکٹر خان طارق تفتیشی آفیسر کرائم برانچ مقرر ہوئے اوراب انہیں بھی ریٹائر ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ لیکن میری کوششوں کے باوجود میرا بیٹا بازیاب نہیں ہوا۔